تحریک انصاف کا بائیکاٹ،پیپلز پارٹی کی عدم شرکت

این اے کمیٹی قانون وانصاف نے انکوائری کمیشن ایکٹ منظور کر لیا ٹی او آرز کمیٹی میں اتفاق پیدا نہیں ہوسکا،اپوزیشن چاہتی ہے ان کے ٹی او آرز مانے جائیں جو ممکن نہیں،حزب اختلاف کا سینٹ میں پیش کردہ بل صرف پانامہ پیپرز تک محدود ہے،زاہد حامد کمیٹی میں ایم کیو ایم کا کمیشن پانچ ارکان تک محدود ،ججز پر مشتمل اور تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ کو باقاعدہ شائع کرنے کی ترامیم کو مان لیا گیا،اجلاس میں 20میں سے 10ارکان کی شرکت

جمعرات 6 اکتوبر 2016 10:28

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔6اکتوبر۔2016ء) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے انکوائری کمیشن ایکٹ 2016 ء ایم کیو ایم کی چند ترامیم کے ساتھ منظور کر لیا ہے۔ تحریک انصاف نے کمیٹی کے اجلاس کا بائیکاٹ کیا جبکہ پیپلزپارٹی کے ارکان نے پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو کی جانب سے منعقدہ پارلیمانی پارٹی اجلاس کے باعث شرکت نہیں کی۔

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کا اجلاس کمیٹی کے چیئرمین چوہدری بشیر ورک کی سربراہی میں بدھ کے روز پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا۔ اجلاس میں وفاقی وزیر قانون و انصاف زاہد حامد نے انکوائری کمیشن ایکٹ کے حوالے سے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ پانامہ لیکس اور دیگر آف شور کمپنیوں کی تحقیقات کیلئے حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ کو خط لکھ کر کمیشن بنانے کی درخواست کی۔

(جاری ہے)

سپریم کورٹ نے جوابی خط میں کہا کہ ان افراد کی نشاندہی کریں جن لوگوں کی تحقیقات پیش نظر ہیں۔ سپریم کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں ٹی او آرز کمیٹی تشکیل دی گئی لیکن ٹی او آرز میں اتفاق پیدا نہیں ہوسکا۔ اپوزیشن چاہتی ہے کہ ان کے ٹی او آرز مانے جائیں جو ممکن نہیں۔ حکومت چاہتی ہے کہ ٹی او آرز پر حکومت اور اپوزیشن کا متفقہ بل لایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ حزب اختلاف کا سینیٹ میں پش کردہ بل صرف پانامہ پیپرز تک محدود ہے جبکہ حکومتی بل 1956 ء کے کمیشن قانون کی بہتر شکل ہے اور ہر قسم کی تحقیقات سے متعلق ہے۔

کمیٹی کے چیئرمین نے استفسار کیا کہ یہ بل فاضل جج صاحبان کی سفارش کے مطابق ہے اور قومی اسمبلی کی سفارشات‘ قانون اور آئین کے مطابق ہیں۔ زاہد حامد نے کہا کہ نئے قانون میں سپریم کوٹ کی سفارشات کے مطابق فوجداری اختیار لایاگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بل میں کمیشن کو عالمی سطح پر شواہد کو ریکارڈ کرنے کیلئے مکمل اختیار دیا گیا ہے ۔ تحقیقات کیلئے قومی اور بین الاقوامی سطح پر ٹیمیں تشکیل دی جا سکتی ہیں۔

انکم ٹیکس ‘ ویلتھ ٹیکس‘ اثاثہ جات اور دیگر تمام امور کے حوالے سے کمیٹی کو اختیار حاصل ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ مجوزہ قانون صرف پانامہ پیپرز ہی نہیں عمران خان‘ جہانگیر ترین کی آف شور کمپنیوں یا مستقبل کی کوئی اور تحقیقات ‘ نیا قانون اس حوالے سے اہم ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ آف شور کمپنیوں کے حوالے سے تحقیقات کو پانامہ پیپرز تک محدود کیا جاسکتا ہے۔

ایم کیو ایم کے رکن ایس اے اقبال قادری نے کمیٹی کے پانچ ارکان تک محدود کرنے اور ججز پر مشتمل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس بات کو بھی قانون سازی میں یقینی بنایا جائے کہ تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ کو باقاعدہ شائع کی جائے اور رپورٹ کا وہ حال نہ ہو جو ماضی میں ہوتا رہا ہے۔ انہوں نے کمیشن کی رپورٹ مکمل کرنے کیلئے وقت مقرر کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔

انکوائری کمیشن قانون میں تحقیقات کیلئے کمیشن کا مقررہ کردہ 17 گریڈ کی بجائے 18 گریڈ کی ترمیم کمیٹی منظور کردی۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف میں موجودہ ارکان نے انکوائری کمیشن ایکٹ 2016 ء منظور کرلیا۔ کمیٹی میں بیس ارکان میں سے دس موجود تھے۔پیپلزپارٹی کے تین ارکان نے پارٹی کے پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس کے باعث شرکت نہیں کی جبکہ تحریک انصاف کے ارکان نے کمیٹی کا بائیکاٹ کیا۔