پانی وبجلی کی خصوصی کمیٹی کا اجلاس

ورلڈ بینک سندھ طاس معاہدے کا ضامن نہیں،عدالت میں جا سکتے ہیں،ایڈیشنل انڈس واٹر کمشنر دریائے سندھ میں سالانہ نو کروڑ ملین ایکڑ پانی بہتا ہے ،بھارت صرف نو ہزار ایکڑ استعمال کرتا ہے،دریائے جہلم میں دوکرو ڑپچاس لاکھ ملین ایکڑ فٹ پانی بہتا ہے، شیراز میمن ڈیموں کی تعمیر اور پا نی کے ذخائر کے حوالے سے اتفاق رائے پیدا کرنا چاہئے،بھارت کی باری تو بعد میں آئے گی،چند سال میں پانی کی صورتحال سنگین ہو گی،عابد شیر علی

جمعہ 30 ستمبر 2016 11:10

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔30ستمبر۔2016ء )پانی وبجلی کی خصوصی کمیٹی کو ایڈیشنل انڈس واٹر کمیشنر شیراز میمن نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ورلڈ بینک سندھ طاس معاہدے کا ضامن نہیں ہے معاہدے کے آرٹیکل 9کے تحت ہم عدالت میں جا سکتے ہیں اور لیگل ایکشن بھی لے سکتے ہیں، دریائے سندھ میں سالانہ نو کروڑ ملین ایکڑ پانی بہتا ہے ،بھارت صرف نو ہزار ایکڑ استعمال کرتا ہے،دریائے جہلم میں دوکرو ڑپچاس لاکھ ملین ایکڑ فٹ پانی بہتا ہے ،بھارت دریائے سندھ کا پانی بند نہیں کر سکتادریائے چناب میں سالانہ دو کروڑ پچیس لاکھ ایم اے ایف پانی بہتا ہے اور بھارت چناب سے بھارت چورانوے ہزار ایم اے ایف پانی استعمال کر سکتاہے دریائے چناب کا سو فیصد پانی بھارت سے آتا ہے مستقبل میں بھارت اس پر ڈیم بنا کر پاکستان کے لئے پریشانی پیدا کر سکتا ہے پاکستان کا بھارت کے ساتھ سات منصوبوں پر تنازعہ چل رہا ہے بھارت ان منصوبوں سے اٹھائیس سو میگاواٹ پن بجلی منصوبے تعمیر کر رہا ہے ان منصوبوں کی تعمیر سے پاکستان میں دریائے جہلم. میں پانی کا بہاوٴ متاثر ہو گا پاکستان رتلے کشن گنگا منصوبوں پر عالمی ثالث سے رجوع کر چکا ہے۔

(جاری ہے)

کمیٹی کا اجلاس جمعرات کے روز چیئرمین کمیٹی سردار محمد یعقوب خان کی زیر سدارت پارلیمنٹ ہاوس میں منعقد ہوا وزیر مملکت برائے پانی و بجلی عابد شیر علی نے کمیٹی کو بتایا کہ ہمیں اپنے اندر ڈیموں کی تعمیر اور پا نی کے ذخائر کے حوالے سے اختلافات دور کرنے کے لئے اتفاق رائے پیدا کرنا چاہئے ہمیں آپس کے اختلافات دور کرنا چاہئے بھارت کی باری تو بعد میں آئے گی آنے والے چند سال میں پانی کی صورتحال کے حوالے سے صورتحال سنگین ہو گی۔

سینٹر تاج حیدر نے کہا کہ بھارت دو اعشاریہ آٹھ ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کر سکتاہے۔ پاکستان کا افغانستان کے ساتھ دریاؤں کے حوالے سے کوئی معاہدہ نہیں ہے۔ افغانستان دریائے چترال اور کابل کا پانی روک سکتاہے جس سے پاکستان کے لئے پریشانی پیدا ہو سکتی ہے۔ بھارت افغانستان میں ڈیموں کی تعمیر میں مدد کر رہا ہے جس پر عابد شیر کہا کہ دریائے کابل پر معاہدے کے لئے دفتر خارجہ کی سطح پر معاملہ اٹھایا ہے پانی کے بڑے زخائر بنانے کے لیے ہمیں مشکل فیصلے کرنے پڑیں گے ہمیں اپنے اختلافات پر قومی اہمیت کو فوقیت دینی چاہیے آنے والے سالوں میں پانی کا مسئلہ شدت اختیار کر جائے گا اگر ہم نے ابھی کچھ نہ کیا تو آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی چئرمین ارسا نے کمیٹی کو بتا یا کہ دریائے کابل کا پانی بائیس ملین ایکڑ فٹ ہے جس میں سے چھ ملین ایکڑ افغانستان میں پیدا ہوتا ہے جبکہ کابل کا سولہ ملین ایکڑ فٹ پانی پاکستان کے اندر پیدا ہوتا ہے سینیٹر عاجز دھامڑا نے کہا کہ میٹھا پانی کے ضیاع سے ہماری 60 لاکھ کے مینگرو کے جنگلات تباہ ہو رہے ہیں ہمارا مطالبہ ہے کہ چھوٹے چھوٹے ڈیمز بنائے جائیں وزارت پانی و بجلی حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ بھارت کسی طور پر اس معاہدے کو یک طرفہ ختم نہیں کر سکتا رتلے اور کشن گنگا پر ہم عالمی ثالثی عدالت جا رہے ہیں بھارت عالمی ثالثی عدالت میں جانے سے گریزاں ہے۔

اگر بھارت 2.8 ایم اے ایف پانی زخیرہ کرتا ہے تو ہم اس پانی سے محروم ہوں گے سینٹر تاج حیدر نے کہا کہ افغانستان سے آنے والے دریاوٴں پر ہمارا کوئی معاہدہ نہیں ہے دریائے کابل کے حوالے سے ابھی تک کوئی معاہدہ نہیں جو ہماری غلطی ہے لنک کینال سے 62 فیصد زمین سندھ کی اور 31 فیصد پنجاب کی زمینں واٹر لاگ کا شکار ہیں بھارت افغانستان کو دریاوٴں پر ڈیمز کی تعمیر کے لیے مالی معاونت کر رہا ہے جس پر تشویش ہے۔

ہمیں اندرونی اور بیرونی سطح پر ہنگامی اقدامات کرنا ہوں گے ہمیں اس معاہدے پر تحفظات ہیں۔ سینیٹر نعیم خواجہ نے کہا کہ بھارت اور چائنہ خطے میں آلودگی بڑھانے والے بڑے ممالک ہیں جس سے ہمارے گلیشیرز پگل رہے ہیں وزارت پانی و بجلی حکام نے کمیٹی کو مزید بتایا کہ پاکستان دریائے رتن ڈیم اور کشن گنگا ڈیم کا معاملہ عالمی عدالت میں اٹھائے گا بھارت کی کوشش ہے تاخیری حربے استعمال کر کے ڈیم بنائے جائیں سندھ طاس معاہدہ اتنا کمزور نہیں کہ بھارت توڑ سکے پانی کے مسئلے پر قابو پانے کیلئے ہمیں آئندہ بیس سالوں کیلئے تیاریاں کرنے کی ضرورت ہے۔