براہمداغ بگٹی پاکستان کے آئین کو تسلیم کرنے اور سکیورٹی کو چیلنج نہ کرنے پر راضی ہو چکے تھے،ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ

حکومت میں آنے کے بعد مذاکرات کیلئے خان آف قلات اور براہمداغ بگٹی کو ٹارگٹ کیا، خان آف قلات کے پاس دو جرگے بھیجے، انہوں نے رضامندی ظاہر کی، مذاکرات بڑا موقع تھا جس کو ہم سب نے گنوا دیا ،سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان کا برطانوی خبر رساں ادارے کو خصوصی انٹرویو

جمعرات 29 ستمبر 2016 10:16

کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔29ستمبر۔2016ء)بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے دعویٰ کیا ہے کہ بلوچستان رپبلکن پارٹی کے سربراہ براہمداغ بگٹی پاکستان کے آئین کو تسلیم کرنے اور سکیورٹی کو چیلنج نہ کرنے پر راضی ہو چکے تھے ان خیالات کا اظہار انہوں نے برطانوی خبررساں ادارے کو دیئے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں بتایا کہ یہ مذاکرات بڑا موقع تھا جس کو ہم سب نے گنوا دیا جب عام انتخابات میں حصہ لیا تو ان کی یہ پالیسی تھی کہ بلوچستان کی شورش کو مذاکرات کے ذریعے سے حل کریں ہم نے حکومت میں آنے کے بعد مذاکرات کے لیے خان آف قلات اور براہمداغ بگٹی کو ٹارگٹ کیا خان آف قلات کے پاس دو جرگے بھیجے انہوں نے رضامندی ظاہر کی، اسی طرح مشترکہ دوستوں کی معاونت سے براہمداغ بگٹی سے رابطہ کیا وہ بھی مذاکرات پر راضی ہوگئے، اس سے میں نے میاں نواز شریف کو آگاہ کیا انہوں نے مجھے اور جنرل عبدالقادر بلوچ کو یہ ٹاسک دیاانہوں نے کہا کہ حکومت کے صرف دو مطالبات تھے کہ وہ آئین پاکستان کو تسلیم کریں اور پاکستان کی سیکورٹی کو چیلنج نہ کریں ان دونوں پر وہ راضی ہوگیا تھاڈاکٹر مالک بلوچ نے براہمداغ بگٹی کے مطالبات بتانے سے انکار کرتے ہوئے کہاکہ براہمداغ بگٹی کے مطالبات خفیہ ہرگز نہیں تھے کسی سطح پر براہمداغ بولے گا یا میں بولوں گا لیکن یہ اتنے بڑے مطالبات نہیں تھے ڈاکٹر مالک بلوچ کا کہنا تھا کہ نواب اکبر بگٹی کے مطالبات بھی کوئی بڑے نہیں تھے، لیکن وہ ایک ڈکٹیٹر کی ضد تھی ان کے مطابق جب بگٹی پر پہلا حملہ ہوا تو وہ ان کے پاس گئے تھے۔

(جاری ہے)

وہ گیس اور ملازمتوں میں ڈیرہ بگٹی اور بلوچستان کے حصے کا مطالبہ کرتے تھے سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ نے کہا کہ جلاوطن بلوچ رہنماؤں سے مذاکرات کے لیے عسکری اور سیاسی قیادت کی مشاورت اور رضامندی شامل تھی کیونکہ عسکری قیادت کی رضامندی کے بغیر تو وہ ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھا سکتے تھے اسلام آباد میں کل جماعتی کانفرنس میں ساری عسکری قیادت شریک تھی جب ہم مذاکرات کے لیے جا رہے تھے تو اس میں میاں نواز شریف اور عسکری قیادت کی رضامندی شامل تھی میں نے تو صرف پل کا کردار ادا کیا آگے چل کر یہ مذاکرات ایک باقاعدہ ٹیم کو کرنے تھے جس میں وفاقی حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور بلوچستان کے لوگوں کو شامل ہونا تھاڈاکٹر مالک بلوچ نے کہاکہ یہ مذاکرات ایک بڑا موقع تھا جو گنوا دیا گیا۔

وہ کہتے ہیں مجھے لگ رہا ہے کہ بلوچستان کے حالات روز بروز مزید خراب ہونگے براہمداغ بگٹی اور خان آف قلات کے بعد ہمیں دوسرے فریقین کے پاس جانا تھا خان آف قلات بھی واپس آنے کو تیار تھا خان نے کہا تھا کہ جس جرگے نے انھیں یہاں بھیجا تھا اگر وہ انھیں لینے آئے تو وہ واپس آنے کو تیار ہیں جس کیلئے ساراوان اور جھالاوان کے چیف، نواب ایاز جوگیزئی اور پشتون قبائلی سرداروں پر مشتمل جرگہ بھیجنا تھا۔