پاک پی ڈبلیو میں100ارب کی کرپشن، پی اے سی نے مقدمات میں پیشرفت کی رپورٹ طلب کر لی

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی حکومت کو ایف ڈبلیو او اور این ایل سی سے اربوں روپے کی ریکوری ہر حال میں یقینی بنانے اور ایف ڈبلیو او کو حاصل ٹیکس استثنیٰ پر ختم کرنے کی ہدایت نیب کرپشن مقدمات کا کولڈ سٹوریج ثابت ہوا، شفقت محمود، غلط معلومات دینے پر ڈائریکٹر جنرل پاک پی ڈبلیو کی سرزنش، افسران کے رویئے پر محمود اچکزئی اجلاس سے چلے گئے

جمعہ 23 ستمبر 2016 11:23

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔23ستمبر۔2016ء)پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے نیب اور ایف آئی اے کو حکم دیا ہے کہ پاک پی ڈبلیو میں100ارب روپے کی کرپشن کے مقدمات کی پیشرفت کی رپورٹ فراہم کرے اس کے علاوہ حکومت کو بھی ہدایت کی گئی کہ ایف ڈبلیو او اور این ایل سی سے اربوں روپے کی ریکوری کو ہر حال میں یقینی بنائے اور ایف ڈبلیو او کو حاصل ٹیکس استثنیٰ فوری طور پر ختم کرے۔

پی اے سی کااجلاس کنویئر عاشق گوپانگ کی صدارت میں ہوا جس میں وزارت ہاؤسنگ اینڈ ورکس کے مالی سال2013-14ء کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا۔ آڈٹ حکام نے بتایا کہ پیپلز پارٹی دور حکومت کے آخری سال پاک پی ڈبلیو میں100ارب روپے کی مالی بد عنوانیاں کی گئی تھیں اور یہ زیادہ تر سکینڈلز کی تحقیقات نیب ، ایف آئی اے کے پاس موجود ہیں۔

(جاری ہے)

کمیٹی کو بتایا گیا کہ نیب کے پاس 2ارب 12کروڑ کرپشن کے مقدمات ہیں۔

ایف آئی اے کے پاس 40کروڑ کرپشن کی انکوائری موجود ہیں مختلف عدالتوں میں 6ارب 15کروڑ 40لاکھ کے مقدمات پیش کئے گئے ہیں۔ شفقت محمود نے کہا نیب اب ایک ایسے ادارہ بن گیا ہے جو کرپشن مقدمات کا کولڈ سٹوریج ثابت ہوا ہے۔ نیب حکام کو پتہ ہی نہیں کہ کون کس کیس کی تحقیقات کرنی ہے۔ پی اے سی نے آبزرویشن دی ہے کہ نیب اور ایف آئی اے پر لازم کیا جائے کہ وہ3ماہ کے اندر کرپشن انکوائریاں مکمل کریں تاکہ مقدمات کا بروقت فیصلہ ہو ۔

اس کے علاوہ عدالتوں کو کرپشن مقدمات میں قوم پر احسان کرنا ہو گا اور بروقت فیصلے کرنا ہوں گے۔ کمیٹی میں ڈائریکٹر جنرل پاک پی ڈبلیو پی اے سی اراکین کو ماموں بناتے رہے اور اجلاس میں غیر سنجیدگی دکھاتے اور ہر کرپشن مقدمہ میں غلط تفصیلات دیتے رہے جس پر ممبر پی اے سی جنید انوار چوہدری نے ان کی شدید سرزنش کی اور وارننگ دی کہ ہم سے مذاق نہ کریں اور کرپٹ لوگوں کا تحفظ کرنے سے گریز کریں پی اے سی نے آبزرویشن دی ہے کہ پاک پی ڈبلیو کرپشن کا گڑھ ہے ۔

اس کے لئے ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دی جائے جو تمام معاملات کا حل تلاش کرے۔ اجلاس کے ابتداء میں فاٹا سیکرٹریٹ حکام نے بتایا کہ نواز شریف حکومت کے ایف ڈبلیو او کو ٹیکس استثنیٰ دے رکھا ہے۔ ایف ڈبلیو او نے اپنے مالی حسابات کا آڈٹ کرانے سے انکار کر دیا ہے پی اے سی نے ہدایت کی جی ایچ کیو بھی اپنے مالی معاملات کا آڈٹ کراتا ہے۔ کیا ایف ڈبلیو او اور این ایل سی جی ایچ کیو سے بھی زیادہ طاقتور ادارے ہیں اور آڈیٹر جنرل کو ہدایت کی ان دونوں اداروں کا آڈٹ فوری کیا جائے۔

محمود خان اچکزئی نے کہا قوم کے ایک ایک پیسہ کا آڈٹ کرنا ہو گا۔ اجلاس میں انکشاف ہوا ہے کہ فاٹا میں ترقیاتی کاموں کی تکمیل میں ایف ڈبلیو او کو غیر قانونی طور پر ایک ارب 14کروڑ روپے ادا کر دیئے گئے ہیں اپنے ٹھیکے کی رقوم کی ادائیگی میں یہ ادارے ٹیکس کٹوتی بھی نہیں کراتے جبکہ کاغذات میں یہ کٹوتی ظاہر کر دیتے ہیں ۔ ایف ڈبلیو او نے 10ٹھیکوں میں 25کروڑ سے زائد کا ٹیکس ادا ہی نہیں کیا ہے جبکہ فاٹا سیکرٹریٹ نے پیمائش کے بغیر ہی ان دونوں کمپنیوں کو 4ارب 23کروڑ روپے جاری کر رکھے ہیں۔

پی اے سی کو بتایا گیا کہ سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے ڈائریکٹو پر مندرہ چکوال روڈ کی تعمیر کے لئے 5ارب98کروڑ روپے فراہم کر دیئے تھے تاہم بعد میں3ارب سے زائد کی رقوم واپس لے لی گئی ہے۔ باقی2ارب60کروڑ ابھی این ایل سی نے دبا رکھے ہیں۔ لیکن حکومت این ایل سی کے سامنے بے بس ہے۔ اب یہ منصوبہ کا پی سی 2تیار ہوا ہے جس کے تحت لاگت 9ارب سے بھی تجاوز کر گئی ہے۔

پی اے سی نے ہدایت کی ہے کہ وفاقی سیکرٹریز خدا کو جوابدہ ہوں گے اس لئے وزیراعظم کے غیر قانونی احکامات ماننے سے واضح انکار کر دیں۔ کمیٹی میں انکشاف ہوا ہے کہ پاک پی ڈبلیو کے افسران نے ریکارڈ میں ٹمپرنگ کر کے ٹھیکیداروں سے ملی بھگت کر کے 8کروڑ اضافی وصول کئے تھے ان افسران کو اب معطل کیا گیا ہے لیکن اب وہی افسران دوبارہ اپنے عہدوں پر براجمان ہیں۔

پاک پی ڈبلیو میں 100ارب کی کرپشن اور سرکاری افسران کا غیر سنجیدہ رویہ دیکھ کر محمود خان اچکزئی ناراض اور دلبرداشتہ ہو کر اجلاس سے اٹھ کر چلے گئے اور کہا میں شریف آدمی ہوں افسران ہمارا مذاق بنا رہے ہیں ایسے حالات میں اجلاس میں نہیں بیٹھ سکتا۔ پی ایس نے احتجاجاً اجلاس ختم کر کے اس ادارے کی کرپشن کی تحقیقات کرنے بارے خصوصی کمیٹی تشکیل دینے کی ہدایت کی ہے۔