انڈیاکی این ایس جی رکنیت:پاکستانی تحفظات کی امریکی کانگریس میں گونج

سینیٹ کی خارجہ تعلقات کی کمیٹی نے گواہوں کی مدد سے مشاہدہ کیا، اس پالیسی سے جنوبی ایشیاء میں نیوکلیئر ہتھیاروں کی دوڑ میں شدت آجائے گی

ہفتہ 10 ستمبر 2016 11:01

واشنگٹن( اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔10ستمبر۔2016ء ) نیوکلیئر سپلائرز گروپ (این ایس جی) کی رکنیت کے حصول میں امریکا کی جانب سے ہندوستان کی حمایت پر اکستان کے تحفظات کی گونج بالآخر امریکی کانگریس میں بھی سنائی دی، جہاں سینیٹ کی خارجہ تعلقات کی کمیٹی نے گواہوں کی مدد سے مشاہدہ کیا کہ اس پالیسی سے جنوبی ایشیاء میں نیوکلیئر ہتھیاروں کی دوڑ میں شدت آجائے گی۔

گواہان اور چند قانون سازوں کے مطابق 1990 میں پاکستان پر لگائی گئی پابندیوں سے جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے پاکستان کی خودمختاری میں اضافہ ہوا اور اگر یہ پابندیاں دوبارہ لگائی گئیں تو یہی سب کچھ دوبارہ ہوگا۔کارنیگی انڈوومنٹ فار انٹرنیشنل پیس کے شریک ڈائریکٹر ٹوبی ڈالٹن نے کمیٹی کو بتایا کہ 'موجودہ امریکی انتظامیہ کی جانب سے این ایس جی رکنیت کے لیے ہندوستان کی غیر مشروط اور غیر معمولی حمایت مسئلے کا باعث ہوگی'۔

(جاری ہے)

واضح رہے کہ پاکستان اور ہندوستان دونوں نے این ایس جی رکنیت کے لیے درخواست دے رکھی ہے، تاہم اسے مسترد کردیا گیا، کیونکہ این ایس جی رکنیت کے لیے جوہری عدم پھیلاوٴ کے معاہدے (این پی ٹی) پر دستخط لازمی شرط ہے۔اگرچہ امریکا سمیت کچھ عالمی طاقتیں ہندوستان کی این ایس جی رکنیت کے حق میں ہیں تاہم چین نے اس کی مخالفت کی اور کہا کہ پاکستان کو بھی ہندوستان کے ساتھ این ایس جی رکنیت دی جانی چاہیے۔

کانگریس کے اجلاس کے دوران پاکستان کے حوالے سے کچھ مصالحتی رویہ دیکھنے میں آیا جبکہ اس سے قبل جون میں ہونے والے اجلاس میں حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائیاں نہ کرنے پر پاکستان کی فوجی امداد میں 30 کرور ڈالر کی کمی کردی گئی تھی۔تاہم جمعرات 8 ستمبر کو ہونے والے اجلاس میں امریکی سینیٹرز اور گواہان نے اس بات پر اتفاق کیا کہ امداد میں کمی سے پاکستان کو اپنی پالیسیوں میں تبدیلیوں پر مجبور نہیں کیا جاسکتا، کچھ تجزیہ نگاروں نے اس سماعت کو معطل شدہ امداد کی بحالی کی طرف 'پہلا قدم' قرار دیا۔

نیو ہمپشائر سے تعلق رکھنے والے ڈیموکریٹ سینیٹر جیئین شاہین نے مسٹر ڈالٹن سے سوال کیا کہ 'اپنی جوہری تنصیبات کی حفاظت میں پاکستان کے کیا مفادات ہیں'۔جس پر ڈالٹن نے جواب دیا، 'اس میں پاکستانیوں کی بہت زیادہ دلچسپی ہے اور جوہری پروگرام جاری رکھنے کے حوالے سے وہاں مکمل اتفاق رائے پایا جاتا ہے'۔ان کا مزید کہنا تھا کہ 'شاید ایٹمی ہتھیار اور کرکٹ وہ واحد 2 چیزیں ہیں، جن پر وہ اتفاق کرتے ہیں'، ساتھ ہی انھوں نے ایٹمی ہتھیاروں کو پاکستان کے 'شاہی جواہرات' قرار دیا۔

ڈالٹن نے کہا، 'انھوں نے اپنے جوہری پروگرام کو محفوظ بنانے کے حوالے سے اہم اقدامات کیے ہیں، وہ تمام خطرات اور چینلجز کو سمجھتے ہیں'۔کولوراڈو ری پبلکن سے تعلق رکھنے والے سینیٹر کوری گارڈنر نے سوال کیا کہ 'کیا ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے دور میں شمالی کوریا سے استوار کیے گئے پاکستان کے تعلقات اب بھی باقی ہیں'۔جس پر ڈالٹن نے جواب دیا کہ 'عبدالقدیر خان کے واقعے کے بعد پاکستان نے اس تعلق کو ختم کردیا تھا اور اس حوالے سے کچھ بھی باقی نہیں، سوائے چند سوشل میڈیا اکاوٴنٹس کے، جن کے مطابق یہ نیٹ ورک اب بھی موجود ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'پاکستان یہ سمجھتا ہے کہ اس طرح کا واقعہ دوبارہ نہ ہو'۔ایک واشنگٹن تھنک ٹینک کے چیئرمین روبرٹ ایل گرینیئر نے نشاندہی کی کہ پاکستان نے 1990 میں شمالی کوریا اور ایران سے اْس وقت رابطہ کیا، جب امریکا نے اس پر پابندیاں عائد کی تھیں۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اپنا جوہری پروگرام ہندوستان کی جانب سے ممکنہ لاحق خطرات کی وجہ سے جاری رکھنا چاہتا ہے، ان کا کہنا تھا کہ 'وہ روایتی ہتھیاروں سے ہندوستان کا مقابلہ نہیں کرسکتے، لہذا انھوں نے یہ راستہ اختیار کیا'۔

انھوں نے خبردار کیا کہ 'اگر ہم ان سے ایک اچھوت کی طرح سے سلوک کریں گے تو وہ بھی ایک اچھوت کی طرح ہی برتاوٴ کریں گے'۔ان کا کہنا تھا کہ 'زیادہ تر پاکستانی اس حوالے سے پرجوش ہیں، صرف اس وجہ سے نہیں کہ اس سے ان کے چین سے تعلقات بہتر ہوں گے بلکہ اس لیے بھی اس طرح کہ ان کے لیے عالمی تجارت کے راستے کھلیں گے'۔ڈاکٹر مارکے نے مزید کہا کہ 'پاکستان میں موجودہ عدم استحکام کا تعلق ان کے معاشی عدم استحکام سے ہے اور کوئی بھی چیز جو ان کی معیشت کو مضبوط کرے وہ پاکستان کے لیے اچھی ہے'۔

انھوں نے کہا کہ 'یہ منصوبہ امریکا کے لیے جزوی طور پر مثبت اور جزوی طور پر تحفظات کا باعث ہے، مثبت اس لیے کیوں کہ اس سے وہاں استحکام پیدا ہوگا اور تحفظات کا باعث اس لیے کیونکہ ہمیں اس حوالے سے اعتراض ہے کہ اس طرح خطے میں چین کا کردار مضبوط ہوجائے گا'۔سینیٹر مارکے نے مزید کہا کہ 'پاکستان نے حال ہی میں ہندوستان کو جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے دو طرفہ معاہدے کی پیشکش کی ہے'، ساتھ ہی انھوں نے مسٹر ڈالٹن سے اس پیشکش کے خلوص کے حوالے سے سوال کیا۔جس پر ڈالٹن کا کہنا تھا کہ 'اس طرح کا معاہدہ ممکن ہے لیکن یہ بہت مشکل ہوگا'۔

متعلقہ عنوان :