ای او بی آئی میں 34 ارب کرپشن کی تفصیلات پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں پیش

کرپشن کرنے والوں میں تحریک انصاف کے علیم خان،سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے داماد‘ ڈی ایچ اے اور ای او بی ائی اے کے سابق چیئرمین ظفر گوندل شامل خورشید شاہ نے بطور انچارج وزارت انچارج ای او بی آئی کے افسران کو 48 کروڑ روپے کی 500 لگژری گاڑیاں خریدنے کی اجازت دی، کمیٹی اجلاس میں انکشاف

بدھ 31 اگست 2016 10:06

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔31اگست۔2016ء) پاکستان پیپلزپارٹی اور مشرف دور حکومت میں ایمپلائز اولڈ ایج بییفٹ انسٹی ٹیوشن (ای او بی آئی) میں ہونے والے 34 ارب روپے کرپشن کی تفصیلات قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں پیش کردی گئی ہیں۔ کرپشن کرنے والوں میں پاکستان تحریک انصاف کے علیم خان سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس (ر) افتخار چوہدری کے داماد‘ ڈی ایچ اے اور ای او بی ائی اے کے سابق چیئرمین ظفر گوندل شامل ہیں ۔

پی اے سی کے اجلاس میں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ سید خورشید شاہ نے بطور وزارت انچارج ای او بی آئی اے کے افسران کو 48 کروڑ روپے کی 500 لگژری گاڑیاں خریدنے کی اجازت دی تھی۔ میرٹ کے خلاف بھرتی ہونے والے افسران کو عدالت عظمیٰ کے حکم سے نکال دیا گیا تھا تاہم جاتے ہوئے افسران ادارہ کی پانچ سو گاڑیاں بھی ساتھ لے گئے۔

(جاری ہے)

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس سید خورشید شاہ کی سربراہی میں گذشتہ روز پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا۔

اجلاس میں چیئرمین ای او بی آئی کے صالح فاروقی نے ادارہ کی کارکردگی اور ادارہ میں ہونے والی کرپشن بارے رپورٹ پیش کیں۔ صالح فاروقی نے دستاویزات پیش کرتے ہوئے بتایا کہ پیپلزپارٹی دور حکومت میں سابق وفاقی وزیر نذیر گوندل کے بھائی اور اس وقت ای او بی آئی اے کے چیئرمین ظفر گوندل نے 18 جائیدادیں لاہور ‘ اسلام آباد‘ کلرکہار‘ چکوال‘ کراچی‘ سکھر میں زیادہ ریٹ پر خریدیں جن سے ادارہ کو 34 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔

عدالت عظمیٰ نے 18 جائیدادوں کی خریداری پر از خود نوٹس لیا تھا اور خود مختار تخمینہ کار کا تعین کیا تھا جس نے رپورٹ عدالت میں جمع کرادی ہے اور ثابت کیا ہے کہ 15 جائیدادیں زیادہ ریٹ پر خریدی تھیں جس سے قومی خزانہ کو 34 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔ سید خورشید شاہ نے کہا کہ سابق صدر مشرف دور حکومت میں ڈی ایچ اے میں بھاری قیمت پر خریدے گئے چار سو پلاٹوں کا مقدمہ بھی سپریم کورٹ میں دیگر مقدمات کے ساتھ جوڑ دیں۔

رپورٹ کے مطابق مشرف حکومت نے چار سو پلاٹ 36 لاکھ روپے فی پلاٹ ڈی ایچ اے سے خریدے تھے جس میں بھاری کرپشن کی گئی ہے۔ ڈی ایچ اے حکام نے نان ڈویلپمنٹ پلاٹوں کی قیمت ڈویلپمنٹ پلاٹوں کی نسبت سے وصول کی تھیں ۔ پی اے سی نے یہ کرپشن کا مقدمہ بھی عدالت عظمیٰ میں لے جانے کی ہدایت کی ہے۔ دستاویزات کے مطابق زرداری دور حکومت میں خریدی گئی جائیدادوں میں گلبرگ لاہور میں 12 کنال کا پلاٹ زیادہ قیمت پر خریدا گیا تھا۔

ظفر گوندل نے لاہور کے موضع سنجیال میں 41 کنال کا پلاٹ شاپنگ کمپلیکس کیلئے خریدا تھا جبکہ ٹھیکہ بھی اسی شخص کو دیا گیا جو اس پلاٹ کا مالک تھا پی ٹی آئی کے رہنماء علیمخان نے ظفر گوندل سے مل کر اربوں روپے کی کرپشن کی تھی سابق چیئرمین نے علیم خان کی ہاؤسنگ سوسائٹی ریورلاج سے سے 2 ارب 60 کروڑ روپے کے پلاٹ بھاری قیمت پر خریدے تھے یہ پلاٹ کوڑیوں کے بھاؤ کے ریٹ پر موجود ہیں علیم خان نے ان پلاٹوں کی قیمت بھی یکمشت وصول کرلی تھی جو کہ خود ایک غیر قانونی اقدام ہے۔

لوئر مال لاہور پلاٹ 83 ملین کا خریدا گیا ۔ سابق چیف جسٹس کے سمدھی کی ملکیتی ہاؤسنگ سوسائٹی ایڈن گارڈن سے اربوں کے پلاٹ خریدے گئے ۔ کلر کہار‘ چکوال میں دو جائیدادیں خریدی گئیں۔ ایف سیون اسلام آباد میں ایک پلازہ خریدہ گیا تھا ظفر گوندل نے ڈی ایچ اے فیز 1 اور فیز 2 راولپنڈی میں 22 ارب کے پلاٹ خریدے تھے یہ پلاٹ نان ڈویلپ تھے تاہم قیمت ڈویلپ پلاٹوں کی وصول کی گئی اس کرپشن پر سابق چیئرمین ظفر گوندل فنانشل ایڈوائزر ‘ ڈی جی امتیاز ‘ زاہد خورشید ‘ نجم الثاقب وغیرہ جیل میں ہیں کچھ ملازمین نے ضمانتیں کرالی ہیں تاہم اب بھی یہ مقدمہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔

اجلاس میں یہ بھی سامنے آیا ہے کہ خورشید شاہ کے دور وزارت میں 400 افراد کو میرٹ کے برعکس بھرتی کیا گیا پھر انہیں 48 کروڑ کی گاڑیاں دی گئیں اب یہ افراد گاڑیاں لے کر بھاگ گئے اور ادارہ وصول کرنے میں بے بس ہے بتایا گیا کہ ای او بی ائی 23 ارب کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے 13 ارب سالانہ انکم ہے 22 ارب کے اخراجات ہیں۔