بچوں کے اغواء کے حوالے سے سوشل میڈیاپرغلط بیانی کی جارہی ہے،عامرذوالفقار

زیادہ تربچے ماں باپ کی سختی کی وجہ سے گھرچھوڑکرگئے تھے،فی الوقت پنجاب میں کسی قسم کامنظم اغواء کاروں کاگینگ کام نہیں کررہا،اعضاء کی چوری کاایک بھی معاملہ پولیس کے ریکارڈمیں نہیں ہے،ڈی آئی جی آپریشنزپنجاب کی برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگو

ہفتہ 27 اگست 2016 11:05

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔27اگست۔2016ء) ڈی آئی جی آپریشنز پنجاب عامر ذوالفقار نے کہا ہے کہ صوبے میں بچوں کے اغوا ء اور اعضا ء کی چوری کے حوالے سے سوشل میڈیا پر غلط بیانی کی جا رہی ہے،زیادہ تر بچے ماں باپ کی سختی کی وجہ سے گھر چھوڑ کر گئے تھے فی الوقت پنجاب میں کسی قسم کا منظم اغوا کاروں کا گینگ کام نہیں کر رہا۔برطانوی نشریاتی ادارے کے فیس بک لائیو کے دوران گفتگو کرتے ہوئے عامر ذوالفقار نے کہا کہ پنجاب میں اعضا ء کی چوری کا ایک بھی معاملہ پولیس کے ریکارڈ میں نہیں ہے۔

گذشتہ پانچ برس کے دوران جن بچوں کی گمشدگی کی رپورٹس پولیس کے پاس درج کروائی گئیں ان میں سے 99فیصد بچے واپس گھروں کو پہنچ چکے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ سنہ 2011ء سے 2016ء کے درمیان پولیس کے پاس 6739بچوں کی گمشدگی کے مقدمات درج کروائے گئے جن میں سے 6161بچے خود سے یا پھر پولیس کی مدد سے بازیاب ہو چکے ہیں۔

(جاری ہے)

عامر ذوالفقار کے مطابق زیادہ تر بچے ماں باپ کی سختی کی وجہ سے گھر چھوڑ کر گئے تھے اور فی الوقت پنجاب میں کسی قسم کا منظم اغوا کاروں کا گینگ کام نہیں کر رہا۔

ڈی آئی جی آپریشنز پنجاب نے بتایا کہ گذشتہ چھ سالوں میں گمشدہ بچوں کی تعداد سو کے قریب ہے۔انہوں نے اس بات کی بھی تردید کی کہ بچوں کو اغوا ء کر کے ان کے اعضا ء نکال کر فروخت کیے جا رہے ہیں۔اگر آپ کسی بھی ماہر سے پوچھیں تو وہ بتائے گا کہ چھوٹے بچوں کے اعضا ء اس طرح بغیر کسی ڈونر میچ کے نہیں استعمال ہو سکتے اور نہ ہی کسی بالغ انسان میں ٹرانسپلانٹ کیے جا سکتے ہیں۔

متعلقہ عنوان :