مول انٹرنیشنل آئل کمپنی نے 100 ارب کاخام تیل چوری کرلیا‘ ایف آئی اے کا قائمہ کمیٹی اجلاس میں انکشاف

کمپنی کے تعاون کئے بغیر چوری ممکن نہیں ‘ پانی ٹینکرز اور ٹینکرز کا سائز تبدیل کرکے تیل چرایا گیا مول تعاون نہیں کررہی‘ ایف آئی اے تیل چوری میں ملوث کمپنی کے ہیڈ آفس کا دورہ کرنے والے وزیر پٹرولیم ساور مول سے قریبی تعلق رکھنے والے افسران کیخلاف بھی تحقیقات کا امکان

ہفتہ 27 اگست 2016 11:36

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔27اگست۔2016ء) ایف آئی اے نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پیٹرولیم میں انکشاف کیا ہے کہ مول انٹرنیشنل آئل کمپنی کے خلاف 100 ارب روپے خام آئل چوری کی تحقیقات جاری ہیں اب تک 150 افراد کو خام آئل چوری کے الزام میں گرفتار کیا جاچکا ہے۔ خیبر پختونخواہ حکومت نے کمیٹی اجلاس میں وزارت پیٹرولیم کی طرف سے انجینئرز کی تربیت کیلئے مختص اربوں روپے کے فنڈز صوبائی حکومت کو فراہم نہ کرنے پر احتجاج کیا ہے اور الزام لگایا ہے کہ گزشتہ 25 سالوں سے کے پی کے سے ایک بھی انجینیئر کو تربیت نہیں دی گئی ہے۔

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پیٹرولیم کا اجلاس ایم این اے ملک اعتبار خان کی صدارت میں او جی ڈی سی ایل ہاؤس میں ہوا۔ اجلاس میں آئل کمپنیوں کی طرف سے رائلٹی فنڈز ‘ تربیت کیلئے مختص فنڈز ‘ بونس اور کے پی کے سے خام آئل کی چوری جیسے امور زیر بحث لائے گئے۔

(جاری ہے)

اجلاس میں سیکرٹری پیٹرولیم ارشد مرزا کے علاوہ وزارت پیٹرولیم کے اعلیٰ حکام شریک ہوئے۔

ڈائریکٹر ایف آئی اے شارق شہزاد نے اجلاس کو بتایا کہ کے پی کے کے علاقے کرک‘ ٹل ‘ ہنگو سے 100 ارب روپے سے زائد کا خام آئل چوری ہوچکا ہے اور اس چوری میں مول انٹرنیشنل آئل کمپنی ملوث ہے۔ ایف آئی اے نے چوری کے خلاف تحقیقات شروع کر رکھی ہیں۔ تاہم مول انٹرنیشنل آئل کمپنی نے ان تحقیقات مین تعاون کرنے سے انکار کردیا ہے۔ ایف آئی اے کے اب تک کی گئی تحقیقات کے بارے میں کمیٹی کو آگاہ کرتے ہوئے شارق شہزاد نے کہا کہ مول کمپنی نے خام آئل کی بڑی پائپ لائن میں سوراخ کرکے اور نئی پائپ لائن لگا کر تیل چرایا ہے۔

انہوں نے کہا کہ خام آئل کی پائپ لائن کا پریشر 1500 پی سی آئی ہوتا ہے اور اگر کمپنی اپنا سسٹم یا مین سسٹم اور نیٹ ورک بند نہ کرے تو پائپ لائن سے تیل چرانا ناممکن ہے کیونکہ 1500 پی سی آئی پریشر سے چھوٹا سوراخ بھی ہو تو دھماکہ اس حد تک ہوسکتا ہے کہ اس کا سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ 2014 ء میں مقامی پولیس نے مقدمہ خام تیل چوری کا درج کرکے ڈرائیورز اور مول کمپنی کے چھوٹے ملازمین کو پکڑ کر بعد میں مقدمہ ختم کردیا تھا۔

شرق شہزاد نے کہا کہ مول کمپنی اوگرا کی طرف سے آئل ٹینکرز کے بارے میں قواعد بنا رکھے ہیں تاہم مول کمپنی نے قواعد کو تبدیل کرکے بڑے سائز کے آئل ٹینکرز بنائے جس سے فی ٹینکر 1000 لیٹر خام آئل چرالیا گیا تھا۔ شارق شہزاد نے بتایا کہ دوسرا طریقہ مول نے پانی کے ٹینکرز کے ذریعے خام آئل چوری کیا ہے جس جگہ خام آئل کا ڈپو ہے وہاں پانی کی شدید کمی ہے۔

مول کمپنی پانی کے ٹینکرز لے جاکر خام آئل کے ٹینکرز بھر کر لاتی رہی اور یہ سلسلہ گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری ہے اور اس چوری میں حکومت اور وزارت پیٹرولیم کے اعلیٰ افسران سے لیکر چھوٹے افسران تک ملوث ہیں۔ ایف آئی اے کے ڈائریکٹر نے بتایا کہ مول کے آفس پر ریڈ کئے ہیں تاہم انٹرنیشنل آئل کمپنی دستاویزات فراہم کرنے سے انکار کر چکی ہے۔ جس سے تحقیقات آگے نہیں بڑھ رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ خام آئل کی اتنے بڑے پیمانے پر چوری پر وزارت پیٹرولیم کی خاموشی بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔ انہوں نے کہا کہ مول اس حد تک طاقتور کمپنی ہے کہ وہ پوری وزارت کو کنٹرول کر چکی ہے اور خود کھربوں روپے کے خام آئل میں ملوث ہے انہوں نے کہا کہ کمپنی نے خود 250 بوذر لگا کر بھی تیل چوری کیا ہے سیکرٹری پٹرولیم نے بتایا کہ مول کے خلاف پہلے ہی وزارت تحقیقات کر چکی ہے اور اپنی رپورٹ میں کمپنی کو بے گناہ ثابت کیا تھا تاہم موجودہ حکومت نے اس رپورٹ کو مسترد کردیا تھا اور اب نئی انکوائری شروع ہے ۔

وزارت پیٹرولیم اس قومی نقصان پر خاموش نہیں ہے چوری کے خلاف بیک وقت تین ادارے انکوائری کررہے ہیں۔ ایف آئی اے کو جو دستاویزات مطلوب ہیں ہم یہ فراہم کردیں گے۔ ایف آئی اے اس حوالے سے اوگرا سے ٹیکنیکل ماہرین سے بھی تعاون حاصل کرے گی۔ کمیٹی ممبران نے کہا کہ ایک طرف مول قوم کا سو ارب روپے سے زائد کا خام آئل چوری کرنے میں ملوث ہے جبکہ دوسری طرف وزیر پیٹرولیم جام کمال خاموشی اور چپکے سے مول کمپنی کے ہیڈ کوارٹرز ہنگری کا دورہ کرتے ہیں اراکین نے اس وزیر موصوف اور مول سے قریبی تعلق رکھنے والے افسران کے خلاف بھی تحقیقات کا دائرہ وسیع کرے۔

ایف آئی اے کے ڈائریکٹر نے بتایا ہے کہ مول اگر تعاون کرے تو دو ماہ میں تحقیقات مکمل کی جاسکتی ہیں۔ صوبہ خیبر پختونخواہ کے آئل اینڈ گیس کمپنی کے سربراہ میجر محمد اسلم خٹک نے کمیٹی کو بتایا کہ ڈائریکٹر جنرل کمیشن وزارت پیٹرولیم نے پیٹرولیم انجینیئرز کی تربیت کیلئے اربوں روپے اپنے قبضہ میں رکھے ہوئے ہیں اور گزشتہ کئی دہائیوں سے کے پی کے کے انجینیئرز کو تربیت کیلئے بیرون ملک نہیں بھجوایا گیا ہے انہوں نے کہا کہ 18ویں ترمیم کے بعد فنڈز اب صوبوں کے حوالے کیا جانا چاہیے تھے لیکن وزارت پیٹرولیم آئین پر بھی عمل نہیں کرتی آئل کمپنیاں ڈرلنگ کے وقت 25000 ڈالر اور پیداوار شروع ہونے پر پچاس ہزار ڈالر انجینیئرز کی تربیت کیلئے حکومت پاکستان کو فراہم کرتی ہیں۔

وزارت پیٹرولیم نے بتایا کہ 2 ارب 23 کروڑ روپے رائلٹی کی مد میں صوبوں کو دیئے گئے تھے سندھ حکومت کے نمائندہ نے بتایا کہ 326 ارب روپے گزشتہ 25 سالوں میں سندھ حکومت کو فراہم کئے گئے ہیں 3192 ملین بونس کے فراہم کئے گئے ہیں جس پر 315 ترقیاتی سکیمیں مکمل کی گئی ہیں۔ کمیٹی نے مطالبہ کیا کہ ترقیاتی سکیموں کو حتمی شکل دینے سے قبل اراکین پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا جائے۔

متعلقہ عنوان :