امریکہ نے ڈرون حملوں میں عام شہریوں کی ہلاکتوں کو کم سے کم کرنے سے متعلق نئی پالیسی جاری کر دی

رپورٹ میں بغیر پائلٹ کے طیارے کے استعمال سے شہری ہلاکتوں کو کم سے کم کرنے پر زور دیا گیا ہے

پیر 8 اگست 2016 10:50

واشنگٹن(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔8اگست۔2016ء)وائٹ ہاوٴس نے صدر باراک اوباما کی طرف سے مہلک ڈرون حملوں کے لیے تین برس قبل جاری کی گئی ہدایات کی مزید تفصیلات جاری کی ہیں۔یہ ہدایات ملک سے باہر دہشت گردوں کو نشانہ بناتے ہوئے سویلین اور غیر مسلح افراد کو بچانے کے لیے جاری کی گئی تھیں۔غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق ’پریزیڈنشل پالیسی گائڈینس‘ کے نام سے جاری کیے جانے والی ان ہدایات میں کہا گیا ہے کہ امریکا فعال جنگی صورتحال سے ہٹ کر کسی ملک میں براہ راست ایکشن صرف اْسی صورت میں لے گا، جب اس بات کا ’تقریبا یقین‘ ہو کہ دہشت گرد ہدف وہاں موجود ہے اور یہ کہ کوئی غیر جنگجو یا عام فرد ہلاک یا زخمی نہیں ہو گا۔

ان ہدایات کے مطابق کسی قانونی ہدف کے خلاف مہلک ایکشن صرف اْسی صورت میں لیا جائے گا جب وہ امریکیوں کے لیے مسلسل اور واضح خطرہ ہو۔

(جاری ہے)

امریکی صدر کی طرف سے جاری کی گئی ہدایات کے مطابق اگر کسی امریکی شہری کے خلاف ڈرون حملہ کرنا مقصود ہو تو اس کی اجازت صدر سے لی جانا ضروری ہے۔ اسی طرح اگر کسی غیر امریکی کو نشانہ بنائے جانے سے متعلق ذمہ دار حکام کے درمیان عدم اتفاق ہو تو بھی صدر سے اجازت ضروری ہو گی۔

دیگر کسی صورت میں صدر کو ڈرون حملے سے قبل آگاہ کرنا تو ضروری قرار دیا گیا مگر اس کے لیے صدر کی باقاعدہ اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔امریکہ نے ڈرون حملوں میں عام شہریوں کی ہلاکتوں کو کم سے کم کرنے سے متعلق نئی پالیسی جاری کر دی ہے۔امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق امریکی شہریوں کی آزادی سے متعلق تنظیم امریکن سول لبرٹیز یونین (اے سی ایل یو) نے صدر براک اوباما کی جانب سے دنیا بھر میں ڈرون حملوں سے متعلق ترتیب دی گئی 18 صفحات پر مشتمل پالیسی رپورٹ جاری کی ہے جس میں بغیر پائلٹ کے طیارے کے استعمال سے شہری ہلاکتوں کو کم سے کم کرنے پر زور دیا گیا ہے، رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ڈرون حملوں سے متعلق پالیسی کا مقصد دہشت گردوں سے نبزد آزما ہونا ہے۔

امریکی صدر کی جانب سے ڈرون حملوں سے متعلق جاری پالیسی میں امریکی فوج سے کہا گیا ہے کہ مہلک ہتھیار اس صورت میں استعمال کیا جائے جب اس بات کا پورا یقین ہو جائے کہ نشانہ خطا نہیں ہوگا اور ہدف پر کوئی عام شہری نہیں بلکہ صرف دہشت گرد ہی موجود ہے۔ رپورٹ کے مطابق امریکی صدر نے قومی سلامتی کے عملے کو مخصوص دہشت گردوں کو نشانہ بنانے کے حوالے سے اہم کردار دیا ہے، کسی پروگرام پر غور کرنے کے لیے کابینہ کے دیگر محکموں اور اداروں کے نمائندوں کا اجلاس بلایا جا سکتا ہے لیکن حتمی فیصلہ صرف صدر کی قومی سلامتی کونسل کرے گی۔

اے سی ایل یو کے قانونی ضوابط کے معاون سربراہ جمیل جعفر نے صدارتی پالیسی کے اجرا کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ ان دستاویز کی مدد سے قانون کی پاسداری اور انسداد دہشت گردی کی حکومتی پالیسیوں پر جاری مباحثے میں آگہی کا پہلو جاگر ہوگا۔امریکی حکام نے کہا کہ ماضی میں پرتشدد انتہا پسند گروپوں سے نمٹنے کے سلسلے میں پاکستان، افغانستان اور یمن جیسے ملکوں میں ضروری ہتھیار کے طور پر ڈرون طیارے استعمال ہوئے، ان حملوں میں ایسے عام شہری بھی ہلاک ہوئے جن کا دہشت گردوں اور شدت پسندوں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

گزشتہ ماہ وائٹ ہاوٴس کی جانب سے جاری رپورٹ میں نے کہا گیا تھا کہ اوباما انتظامیہ کی جانب سے 2009 میں دہشت گردوں کے خلاف شروع کی گئی کارروائیوں میں اب تک 2600 دہشت گرد جب کہ 64 اور 116 کے درمیان شہری ہلاک ہوئے۔دوسری جانب ناقدین کا کہنا ہے کہ امریکی حکام کی جانب سے فضائی کارروائیوں اور ڈرون حملوں کے نتیجے میں بتائی جانے والی شہری ہلاکتیں 116 سے کہیں زیادہ ہیں کیونکہ اوباما انتظامیہ نے اپنی رپورٹ میں افغانستان، شام اور عراق میں ہونے والی شہری ہلاکتوں کو شامل نہیں کیا۔ امریکی سینیٹر لنڈسے گراہم نے 2013 میں جمع کرائی گئی اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ امریکی ڈرون حملوں میں 4 ہزار 700 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

متعلقہ عنوان :