راہداری منصوبہ فوج یا کسی اتھارٹی کی زیر نگرانی نہیں دیا جائیگا،وزارت منصوبہ بندی

گوادر ماسٹر پلان کو فوری تیار کر کے عمل میں لایا جائے،کیونکہ غیر قانونی کالونیاں اور کمرشل زمینوں کی خریدو فروخت کو روکا جا سکے،این اے کمیٹی منصوبہ بندی ،ترقی و اصلاحات کی ہدایت

بدھ 20 جولائی 2016 10:05

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔20جولائی۔2016ء)وزارت منصوبہ بندی و ترقی کے اعلیٰ حکام نے کہا ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کو فوج یا کسی اتھارٹی کی زیر نگرانی نہیں دیا جائے گا،اور اس کی مکمل نگرانی وزارت منصوبہ بندی و ترقی کے پاس رہے گی،چےئرمین کمیٹی عبدالمجید خان نے کہا ہے کہ سی پیک کے منصوبوں کے لیے ایک مناسب فورم بنایا جائے جس سے چین اور پاکستان کے تمام متعلقہ اداروں کے تحفظات دور کئے جا سکیں،وزارت منصوبہ بندی و ترقی کے اعلیٰ حکام نے اعتراف کیا ہے کہ گوادر پورٹ اور شہر کے لیے کوئی ماسٹر پلان تیار نہیں کیا گیااور اس حوالے سے اقدامات کی ضرورت ہے جس پر کمیٹی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سفارش کی ہے کہ گوادر ماسٹر پلان کو فوری تیار کر کے عمل میں لایا جائے،کیونکہ غیر قانونی کالونیاں اور کمرشل زمینوں کی خریدو فروخت کو روکا جا سکے۔

(جاری ہے)

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے منصوبہ بندی ،ترقی و اصلاحات کا اجلاس گزشتہ روز چےئرمین کمیٹی عبدالمجید خان کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہواجس میں ممبران کمیٹی محمد اطہر شاہ،شاہینہ شفیق،شمس النساء ،جنید اکبر،آسیہ ناصر،شیر اکبراور افتخارالدین کے علاوہ وزارت منصوبہ بندی ،کیسکو، ، وزارت ریلوے،سول ایوی ایشن،این ایچ اے اور وزارت پورٹ اینڈ شپنگ کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی ۔

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کو وزارت منصوبہ بندی و ترقی کے ایڈیشنل سیکرٹری ظفر حسن نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ سی پیک منصوبے کی نگرانی کے لیے فوج سمیت کسی بھی اتھارٹی قائم نہیں کی جا رہی اور نہ ہی ایسی کوئی تجویز زیر غور ہے،وزارت منصوبہ بندی و ترقی کے زیر نگرانی سی پیک منصوبوں پر کام جاری ہے اور تمام متعلقہ اداروں سے مکمل مشاورت کی جا رہی ہے ، انہوں نے مزید کہاکہ گوادر فری پورٹ کا افتتاح اگلے ماہ کیا جائے گااور1.5ارب روپے کی لاگت سے گوادر سیف سٹی ،25بلین کی لاگت سے ہسپتال کی توسیع اور وکیشنل ٹریننگ انسٹیوٹیوٹ پر کام جاری ہے۔

چےئرمین کمیٹی عبدالمجید خان نے نے سوال اٹھایا کہ گوادر میں غیر قانونی کالونیاں اور کمرشل پلاٹوں کا کاروبار عروج پر ہے اور اس حوالے سے کوئی اقدامات بھی سامنے نہیں آ رہے ہیں،جس پر وزارت منصوبہ بندی کے اعلیٰ حکام نے اعتراف کیا کہ اس وقت تک گوادر پورٹ اور شہر کے لیے کوئی ماسٹر پلان تیار نہیں کیا جا سکا کیونکہ چینی حکام کے ساتھ مشاورت مکمل کرنے کے بعد ماسٹر پلان تیار کیا جائے گا،قائمہ کمیٹی برائے منصوبہ بندی نے برہمی کا اظہار کیا ہے کہ اس قدر بڑھے منصوبے کے لیے ماسٹر پلان تیار نہ کرنا افسوسناک ہے ،چےئرمین کمیٹی نے کہا ہے کہ سی پیک کے بارے میں متنازعہ خبریں میڈیا پر گردش کر رہی ہیں کہ منصوبوں پر کام سست روی کا شکار ہے اور اس حوالے سے ایک مناسب فورم بنایا جائے تا کہ تمام متعلقہ ادارے استفادہ حاصل کر سکیں اورگوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی پر چیک اینڈ بیلنس رکھا جائے تا کہ غیر قانونی زمین کی خریدو فروخت کے لیے این او سی جاری نا کیا جا سکے،انہوں نے کہا کہ فوج کے تعاون کے بغیر ویسے بھی کوئی سلسلہ چل نہیں سکتا ،ملک میں امن وامان قائم کرنا فوج کی ذمہ داری ہے۔

سول ایوی ایشن کے اعلیٰ حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ گوادر انٹرنیشنل ائر پورٹ پر کام سے ستمبر میں شروع ہوجائے گااور اس کو شفاف طریقے سے محدود وقت میں تیار کر لیا جائے گا،وزارت ریلوے کے اعلیٰ حکام نے کمیٹی کوبریفنگ دی ہے کہ سی پیک کے تحت کراچی سے پشاور 1681کلو میٹر طویل ریلوے لائن (ایم ایل ون)،کراچی ،لاہور اور پشاور سے براستہ 1254کلو میٹر طویل ریلوے لائن(ایم ایل ٹو)،گوادر سے بسیمہ اور کوئٹہ 1150کلو میٹر طویل ریلوے لائن پر کام جاری ہے اور سی پیک کے تحت پاکستان کے شہر چمن سے کندھار اور پشاور سے جلال آباد ریلوے لائن بچھانے کا منصوبہ بھی تیار ہو چکا ہے ۔

چیف انجینئر کیسکو شیخ عتیق نے کمیٹی کو بتایا کہ گوادر سٹی کے لیے بجلی مہیا کرنے کے منصوبوں پر کام جاری ہے اور300میگاواٹ بجلی گوادر کے لیے کافی ہو گی۔وزارت پورٹ اینڈ شپنگ کے اعلیٰ حکام نے بتایا ہے کہ 20سال تک چینی کمپنیوں کو ٹیکس چھوٹ دی گئی ہے اور اکانومی فری زون کے لیے 2200ایکڑ مختص کر دیئے گئے ہیں،اکنامک زونز کے لیے چاروں صوبوں کے اعلیٰ حکام کی مشاورت جاری ہے اور اس حوالے سے چین کا بھی دورہ کر چکے ہیں۔

ممبر قومی اسمبلی جنید اکبر نے کہا ہے کہ سی پیک ایک قومی منصوبہ ہے مگر اس پر کام تسلی بخش نہیں ہو رہااور اس کو شفاف طریقے سے مکمل کرنے کے لیے مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ممبر کمیٹی افتخار الدین نے کمیٹی میں وزارت منصوبہ بندی پر برہمی کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ 40سال پرانے منصوبے بھی پی ایس ڈی پی میں شامل کیے گئے ہیں اور منصوبوں کو ادھورا چھوڑ دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے ان کی لاگت میں اربوں روپے کا اضافہ ہو جاتا ہے ۔

ایم این اے شیر اکبر نے کہا ہے کہ سی پیک کے تحت پسماندہ ترین علاقوں کو نظر ا نداز کیا گیا اور چھوٹے منصوبے مختص کرنے کے باوجود فنڈز مہیا نہیں کیے جا رہے۔چےئرمین کمیٹی نے کہا ہے کہ دستاویزات کے مطابق منصوبو ں پر کام زورو شور سے جاری ہے مگر زمینی حقائق کو دیکھا جائے تو کچھ بھی کام نہیں ہو رہا ہوتا جس سے کمیٹی کے اعتماد کو ٹھیس پہنچتا ہے۔

متعلقہ عنوان :