کراچی، ڈاکٹر عاصم کیس کے ملزمان کی ضمانت میں توثیق کی درخواست مسترد

وسیم اختر ، روف صدیقی اور ا نیس قائم خانی گرفتار، پی پی رہنما عبدالقادر پٹیل عدالت سے فرار بعدازاں گرفتاری دے دی کیس کی سماعت 3اگست تک ملتوی کردی

بدھ 20 جولائی 2016 09:55

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔20جولائی۔2016ء)انسداد دہشت گردی کی عدالت نے دہشت گردوں کے علاج معالجے سے متعلق ڈاکٹر عاصم کیس کے ملزمان کی ضمانت میں توثیق کی درخواست مسترد کردی ، جس کے بعد نامزد میئر کراچی وسیم اختر ، روف صدیقی اور ا نیس قائم خانی کو گرفتار کرلیا گیا، کیس میں نامزد ایک اور ملزم پی پی رہنما عبدالقادر پٹیل عدالت سے فرار ہوگئے، عدالت نے کیس کی سماعت 3اگست تک ملتوی کردی۔

کمرہ عدالت سے کسی کو گرفتار نہیں کیا جاسکتا اس لیے وسیم اختر، روف صدیقی اور انیس قائم خانی کو کمرہ عدالت کے باہر احاطہ عدالت سے گرفتار کیا گیا ہے۔عدالتی فیصلہ آنے کے بعد بکتر بند گاڑی عدالت کے دروازے کے باہر لگادی گئی جبکہ ایس ایچ او بوٹ بیسن اضافی نفری کے ساتھ انسداد دہشت گردی عدالت پہنچے اور ملزمان کو بکتر بند گاڑی میں بٹھا کر جیل منتقل کردیا گیا۔

(جاری ہے)

عدالت کا فیصلہ آنے کے بعد اے ٹی سی کے گیٹ پر پولیس کی بھاری نفری تعینات کردی گئی تھی اور کیس کے ملزمان نامزد میئر وسیم اختر، عبدالرؤف صدیقی اورپاک سرزمین پارٹی کے رہنما انیس قائم خانی کو احاطہ عدالت سے باہر نہیں جانے دیا گیا۔وزیر داخلہ سندھ سہیل انور سیال نے پولیس کو ہدایت کی ہے کہ عبدالقادر پٹیل کو فوری گرفتار کیا جائے۔اس سے قبل متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما وسیم اختر نے میڈیاسے گفتگو میں بتایا کہ عدالت میں پیش ہونے کیلئے کل لندن سے واپس آیاہوں، وکلاء میری ضمانت کیلئے ہائیکورٹ سے رجوع کریں گے لیکن وکلاء کو ہائیکورٹ جانے نہیں دیا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جھوٹی اور جعلی جے آئی ٹی کی بنیاد پر درخواست ضمانت مسترد کی گئی۔رہنما پیپلزپارٹی قادرپٹیل نے میڈیا سے گفتگومیں بتایا کہ جب میں عدالت پہنچا تو دروازے بند تھے اور پولیس نے اندر جانے نہیں دیا، سیاسی کارکن ہوں ، حالات جیسے بھی ہوں سامنا کروں گا،بھاگنے والانہیں۔ایم کیو ایم رہنما روف صدیقی کا موقف ہے کہ فیصلہ طے شدہ تھا جو سیاسی انتقام کی بد ترین مثال ہے، ہم سیاستدان ہیں تو کیا جیل جائیں۔

یاد رہے کہ مذکورہ کیس میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنماء ڈاکٹر عاصم حسین پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنے اسپتال میں دہشت گردوں کو علاج کی سہولت فراہم کی۔خیال رہے کہ ضیا الدین اسپتال کے ڈائریکٹر ڈاکٹر یوسف ستار نے یکم دسمبر2015 کو دفعہ 164 کے تحت مذکورہ کیس میں بیان قلمبند کراتے ہوئے ڈاکٹر عاصم پر لگائے گئے الزامات اور 28 دہشت گردوں کو طبی امداد فراہم کرنے کا اعتراف کیا تھا۔

ڈاکٹر یوسف ستار نے اپنے اعترافی بیان میں ڈاکٹر عاصم حسین کے خلاف درج ایف آئی آر میں تمام مندرجات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایم کیو ایم کے رہنما وسیم اختر، روٴف صدیقی، انیس قائم خانی، سیلم شہزاد اور پیپلزپارٹی کے قادر پٹیل کی ایما پر دہشت گردوں کو سہولیات فراہم کی گئی تھیں ادھرپیپلز پارٹی کے رہنما عبدالقادر پٹیل نے بوٹ بیسن تھانے پہنچ کرگرفتاری دیدی،اس موقع پر پولیس کی بھاری نفری تھانے میں موجود تھی۔

عبدالقادرپٹیل کو سینٹرل جیل منتقل کردیا گیا، اس موقع پر پیپلز پارٹی کے کارکن بھی بوٹ بیسن تھانے پر موجود تھے جو عبدالقادرپٹیل کے حق میں نعرے لگاتے رہے۔گرفتاری سے قبل عبدالقادرپٹیل کا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ میں کسی کام میں مصروفیت کی وجہ سے کورٹ کچھ تاخیر سے پہنچا، میں کمرہ عدالت پہنچا ہی نہیں، مجھے کورٹ میں جانے نہیں دیا گیا، اس کا ثبوت یہ ہے کہ عدالت میں میری غیرحاضری درج ہوئی ہے، اس دوران مجھے پتا چلا کہ میری عبوری ضمانت مسترد ہوگئی ہے، جس کے بعد میں بڑے سکون سے باہر آیا اور گاڑی میں بیٹھ کر اپنے وکیل دوست کے یہاں گیا کہ ان سے مشورہ کر سکوں۔

انہوں نے مزید کہا کہ میں لندن سے آیا ہی رینجرز کے خط کی بنیاد پر ہوں، جب میں وہاں سے چل کر آسکتا ہوں تو میں کورٹ سے کیوں فرار ہوں گا، جب کہ میڈیا میں یہ خبریں چلنے لگیں کہ میں عدالت سے فرار ہوگیا، اسی لیے میں اس وقت گرفتاری دینے آیا ہوں کہ میرے خلاف جو منفی پروپیگنڈا کیا جارہا ہے اسے دور کیا جاسکے۔ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ وزیر داخلہ نے میری گرفتاری کے احکامات کیوں دیئے یہ سوال انہی سے پوچھیں ،میں تو ابی جیل جارہا ہوں اور وزیر داخلہ وزیر جیل بھی ہیں اس لیے وہ خود اس سوال کا بہتر جواب دے سکتے ہیں ۔ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر عاصم خود ہمارے اوپر الزامات سے انکار کرتے ہیں ، ڈاکٹرعاصم ہمارے کہنے پراچھے کام نہیں کرتا برے کام کیوں کرے گا۔