وزارت مذہبی امور کی طرف سے حج 2016ء کے لئے طالبان پس منظر رکھنے والے دو اعلیٰ پولیس افسران کی خدمات حاصل کرنے کا انکشاف

سندھ سے تعلق رکھنے والا پولیس آفیسر علی شیر جاکھرانی گزشتہ برس بھی حج معاون کے طور پر فرائض سر انجام دے چکا ہے وزارت مذہبی امور نے سکیورٹی کلیئرنس حاصل کئے بغیر دونوں افسران خدام الحجاج کی نگرانی کے لئے نامزد کر دیا

پیر 18 جولائی 2016 10:54

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔18جولائی۔2016ء) وزارت مذہبی امور کی طرف سے حج 2016ء کے لئے طالبان پس منظر رکھنے والے دو اعلیٰ پولیس افسران کی خدمات حاصل کرنے کا انکشاف ہوا ہے۔ سندھ سے تعلق رکھنے والا پولیس آفیسر علی شیر جاکھرانی گذشتہ برس بھی حج معاون کے طور پر فرائض سر انجام دے چکا ہے۔ وزارت مذہبی امور نے سکیورٹی کلیئرنس حاصل کئے بغیر دونوں افسران خدام الحجاج کی نگرانی کے لئے نامزد کر دیا گیا۔

خبر رساں ادارے کو ملنے والی مصدقہ معلومات کے مطابق وزارت مذہبی امور نے اس برس حج معاونین کے لئے ایس پی کامران عادل اور ایس پی علی شیر جاکھرانی کی خدمات حاصل کی ہیں۔ علی شیر جاکھرانی نے اپنے محکمے کا این او سی آنے سے پہلے ہی حاجی کیمپ راولپنڈی میں ڈیرے ڈال لئے ہیں۔

(جاری ہے)

علی شیر جاکھرانی کا تعلق سندھ سے ہے اور اس کے بیٹے اویس جاکھرانی پر طالبان سے مل کر نیول ہیڈ کوارٹر پر حملے کا الزام تھا۔

اویس جاکھرانی جو کہ سیکنڈ لیفٹیننٹ کے طور پر نیوی میں فرائض سر انجام دے رہے تھے کو سخت گیر مذہبی رجحان کی وجہ سے نیوی سے نکال دیا گیا تھا۔ اویس جاکھرانی نے کھلے سمندر میں جنگی بحری جہاز کا کنٹرول سنبھال کر طالبان کی معاونت کی تھی۔ اس جنگی بحری جہاز کو ہائی جیک کرنے کی کوشش میں اویس جاکھرانی ساتھیوں سمیت مارا گیا تھا۔ اس وقت علی شیر جاکھرانی کراچی میں بطور سینئر پولیس افیسر فرائض سر انجام دے رہے تھے۔

اس وقوعہ کے بعد علی شیر جاکھرانی کو سندھ بدر کر دیا گیا اور وہ آج کل گلگت بلتستان میں ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں اور گزشتہ برس بھی علی شیر جاکھرانی کو خدام الحجاج کی معاونت کے لئے منتخب کیا گیا تھا اور اس کے پس منظر سے متعلق خوفناک حقائق کو نظر انداز کر دیا گیا اور اب ایک بار پھر علی شیر جاکھرانی اپنے ادارے کی طرف سے این او سی ملنے سے پہلے وزارت مذہبی امور کا گرین سگنل ملتے ہی حاجی کیمپ میں ڈیرے ڈال چکے ہیں۔

اسی حوالے سے وزارت مذہبی امور نے ایک اور اعلیٰ پولیس آفیسر کامران عادل کو منتخب کیا ہے جو کہ ایس پی اسلام آباد بھی رہ چکے ہیں۔ کامران عادل کے بھائی حماد عادل کے دہشتگردوں سے تعلقات کی بنا پر اسے بہارہ کہو اسلام آباد سے گرفتار کیا گیا۔ اس کے خلاف تھانہ بہارہ کہو میں مقدمات بھی درج ہیں۔ سعودی عرب جو کہ بذات خود دہشتگردی کی لپیٹ میں بری طرح آ چکا ہے اور گزشتہ برس مناسک حج کے دوران بھگدڑ مچ جانے سے ایک ہزار سے زائد لوگ جاں بحق ہو گئے تھے۔

اتنے اہم اور حساس مقدسہ فریضہ کے لئے ان دو افسران کی نامزدگی وزارت مذہبی امور کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ اس حوالے سے جب وزارت مذہبی امور کے ایڈیشنل سیکرٹری اور ترجمان نور زمان سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے خبر رساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے علم میں ان دونوں افسران کے اس پس منظر بارے کوئی معلومات نہیں تھیں۔ میں ان حقائق کو سیکرٹری اور وفاقی وزیر مذہبی امور کے سامنے رکھوں گا۔

مختلف محکمے جن لوگوں کو نامزد کر کے بھیجتے ہیں ہم انکی منظوری دے دیتے ہیں۔ پہلے آرمی کا سینئر افسر خدام الحجاج کو ہیڈ کرتا تھا اور اب پولیس سے لیا جاتا ہے۔ وزارت مذہبی امور اس سلسلے میں تصدیق نہیں کروائی لیکن مذکورہ دونوں افسران کا معاملہ اس لئے حساس ہے کہ خدانخواستہ کوئی حادثہ ہو جاتا ہے تو کوئی ان محکموں سے نہیں بلکہ وزارت مذہبی امور سے جواب طلب کرتا ہے۔

واضح رہے کہ کامران عادل کے والد کے گھر واقع بہارہ کہو سے بارود سے بھری ہوئی گاڑی برآمد ہوئی تھی اور اس وقت اسکا بھائی حماد عادل بھی گھر پر موجود تھا۔ اور ایس پی کامران عادل نے اپنے بھائی حماد عادل کے قول و فعل کی تردید کی تھی۔ حج2016ء کے حوالے سے مزید معلوم ہوا ہے کہ وزارت مذہبی امور کی طرف سے اس سال ڈی جی حج ساجد یوسفانی کو مقرر کیا گیا ہے جنکا تعلق سندھ سے ہے اور انہوں نے مزید افسران بھی سندھ سے ہی لئے ہیں۔ ان میں ڈائریکٹر حج اشرف زبیر، علی شیر جاکھرانی اور اے آئی جی سندھ قمر رضا حقانی شامل ہیں۔