ترکی میں حکومت کا تختہ الٹنے کی ناکام کوشش کے دوران ہلاک ہونے والوں کی تعداد بڑھ کر 265 ہو گئی

عوام کی طاقت سے ناکام مسلح بغاوت میں 264 افراد ، تین ہزار باغی فوجی گرفتار، 5 جنرلز اور 29 کرنلز برطرف عوام کی طاقت سے بڑی کوئی طاقت نہیں، ملک کے اتحاد اور استحکام کے خلاف سازش کی گئی تھی ، غداروں کو ڈھونڈ نکالیں گے ، صدر طیب اردگان یہ ترکی کیلئے سیاہ دھبہ ہے ،ایک گروہ کی جانب سے بغاوت کی کوشش ناکام بنا دی گئی ، منصوبہ بندی کرنے والوں کو ’انصاف کے کٹہرے‘ میں لایا جائے گا، وزیر اعظم بینالی یلدرم پاکستان سمیت عالمی برادری کی جانب سے فوجی بغاوت کی کوشش پر کی شدید مذمت استنبول ائیر پورٹ پر 200 سے زائد پاکستانی پھنس گئے، زیراعظم نواز شریف نے اقدامات کی ہدایت کردی

اتوار 17 جولائی 2016 11:33

انقرہ ،اسلام آباد،ایتھنز،واشنگٹن (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔17جولائی۔2016ء) ترکی میں ایک فوجی گروہ کی جانب سے حکومت کا تختہ الٹنے کی ناکام کوشش کے دوران ہلاک ہونے والوں کی تعداد بڑھ کر 265 ہو گئی ہے۔سنیچر کی شام ترکی کے صدر دفتر سے جاری کیے جانے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ بغاوت کی کوشش کے دوران مرنے والوں کی تعداد بڑھ گئی ہے اور تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق مرنے والے 265 افراد میں سازش کی منصوبہ کرنے والے 104 افراد اور 161 عام شہری شامل ہیں۔

ان عام شہریوں میں سے 20 افراد ایسے تھے جنہوں نے سازش میں معاونت کی تھی۔ترک حکومت کا تختہ الٹنے کی ناکام سازش میں شریک اعلیٰ افسران سمیت 2,839 سپاہیوں کو بھی حراست میں لے لیا گیا۔ تختہ الٹنے کی ناکام سازش کے بعد حکومت نے ملک بھر میں 2745 ججوں کو برخاست کر دیا ہے۔

(جاری ہے)

ترکی میں عوام کی جانب سے صدر رجب طیب اردگان کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے فوجی بغاوت کو ناکا م بنانے کے دوران کم از کم 264 افراد مارے گئے جبکہ قریب تین ہزار باغی فوجی اہلکاروں کو گرفتار بھی کر لیا گیا ہے، جن میں پانچ جنرل اور انتیس کرنل بھی شامل ہیں،ناکام فوجی بغاوت کے دوران ملکی پارلیمان اور صدارتی محل کے قریب فضائی حملے بھی کیے گئے،ترک صدر کا کہنا تھا کہ عوام کی طاقت سے بڑی کوئی طاقت نہیں، ملک کے اتحاد اور استحکام کے خلاف سازش کی گئی تھی ، غداروں کو ڈھونڈ نکالیں گے ، وزیر اعظم بینالی یلدرم نے کہا ہے کہ یہ ترکی کیلئے سیاہ دھبہ ہے ،ایک گروہ کی جانب سے بغاوت کی کوشش ناکام بنا دی گئی ہے اور اس کی منصوبہ بندی کرنے والوں کو ’انصاف کے کٹہرے‘ میں لایا جائے گا،پاکستان سمیت عالمی برادری کی جانب سے فوجی بغاوت کی کوشش پر کی شدید مذمت کی گئی ہے ۔

ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق ترکی میں فوج کے ایک باغی دھڑے کی طرف سے جمعہ و ہفتہ کی درمیانی رات ملک کے آرمی چیف کو یرغمال بناکرحکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی ،جس میں کرنل رینک کے افسران شامل تھے۔ ترکی میں حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کا آغاز جمعے کی شام ساڑھے سات بجے ہوا جب استنبول کے مرکزی پلوں پر ٹینک کھڑے کر دیے گئے۔ اسکے تھوڑی ہی دیر بعد فوجی گاڑیاں اور ٹینک سڑکوں پر نکل آئے اور استنبول کے مشہور تقسیم چوک کے قریب اور انقرہ میں پارلیمان کی عمارت میں دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں۔

باغی گروپ نے سرکاری ٹی وی پر اعلان کیا کہ ملک میں مارشل لا اور کرفیو لگا دیا گیا ہے، اقتدار ان کے پاس ہے اور ایک ’امن کونسل‘ اب ملک کا نظام چلائے گی۔ فوج کے باغی گروپ کی جانب سے جاری بیان میں اقتدار سنبھالے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا گیا کہ ہماری کارروائی مصر کی فوجی بغاوت سے مختلف ہے، ملک میں آئینی و جمہوری انسانی حقوق کی بحالی اور جمہوری اقدار کے لیے اقتدار سنبھالا۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ ترکی تمام ممالک سے اپنے تعلقات جاری رکھے گا، انسانی حقوق کا احترام کیا جائے گا اور خارجہ امور سے متعلق بھی تعلقات قائم رکھیں گی جب کہ قانون کی مکمل پاسداری کی جائے گی۔ ملک کا نیا آئین جلد تیار کرلیا جائے گا اور جب تک ملک کا نظم و نسق امن کونسل چلائے گی۔ فوج کے ایک گروپ کی جانب سے بغاوت کے بعد ترک صدر رجب طیب اردگان نے آئی فون کی فیس ٹائم سروس کی مدد سے ترک ٹی وی پر بیان دیا جس میں انھوں نے عوام سے بغاوت کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی اپیل کی۔

اس اعلان کے بعد عوام کی بڑی تعداد سڑکوں پر نکل آئی اور باغی فوجیوں کے خلاف آواز بلند کی۔ صدر نے کہا کہ اقتدار پر قبضے کی کوشش ناکام بنادیں گے اور اس طرح کا قدم اٹھانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کریں گے، بغاوت کی کوشش کرنے والوں کو کچل دیں گے اور صورتحال پر جلد قابو پالیں گے۔ ترک صدر کا کہنا تھا کہ باغی فوجی گروپ جلا وطن رہنما فتح اللہ جولان کے حامی ہیں جو امریکا میں مقیم ہیں۔

ترک صدر نے اپنے خطاب میں عوام سے اپیل کی کہ وہ سڑکوں پر نکل آئیں اور اقتدار پر قبضے کی کوشش ناکام بنادیں۔ ترک صدر کی اپیل کے بعد ملک میں کرفیو کے اعلان کے باوجود ہزاروں کی تعداد میں عوام کی رات گئے استنبول کے تقسیم اسکوائر اور انقرہ سمیت دیگر شہروں میں نکل آئی اور ترک صدر اور جمہورت کی حمایت میں نعرے بازی شروع کردی، ترک عوام باغی گروپ کے سامنے سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوئے، فوجی اہلکاروں کو عوام کی سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، عوام کی بڑی تعداد آگے بڑھتے ہوئے فوجی ٹینکوں پر ڈنڈے برسانا شروع کردیئے اور بعض لوگ ٹینکوں کے سامنے لیٹ گئے، وزیراعظم ہاوٴس کی جانب جانے والے ٹینکوں کو عوام کی بڑی تعداد نے سامنے آکر روک لیا، عوام وزیراعظم ہاوٴس کی جانب بڑھنے والے ٹینکوں پر چڑھ گئے جس کے باعث ٹینکوں کو پیچھے ہٹنا پڑا اور عوام پولیس اور جمہوریت پسند فوج نے زبردست مزاحمت کرتے ہوئے باغیوں کی ایک نہ چلنے دی اور بغاوت کی کوشش کو مکمل طور پر ناکام بنا دیا۔

اے ایف پی کے مطابق ترک فوج کے ایف 16 طیارے نے باغی گروپ کا گن شپ ہیلی کاپٹر مار گرایا جس کے بعد باغی ٹولے کے گن شپ ہیلی کاپٹر نے پولیس اور عوام پر اندھا دھند فائرنگ کردی،انقرہ کے ایئرپورٹ میں داخل ہونے والے فوجیوں کو عوام نے باہر نکال دیا جب کہ استنبول میں پولیس ہیڈ کوارٹر میں گھسنے والے باغی اہلکاروں کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔فوجی بغاوت کا اعلان کرنے کے بعد باغیوں نے مرماریس میں موجود ترک صدر طیب اردگان کو بھی گرفتار کرنے کی کوشش کی۔

فوجی اہلکاروں نے مرماریس میں اس ہوٹل پر دھاوا بولا جہاں طیب اردگان چھٹی منانے کے لیے موجود تھے۔ اس دوران پولیس اہلکاروں اور باغیوں کے دوران شدید جھڑپ ہوئی جس میں پولیس کے 2 جوان ہلاک اور 9 زخمی ہو گئے۔غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ طیب اردوان باغی فوجیوں کے پہنچنے سے پہلے ہی ہوٹل سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ وزیر اعظم بن علی یلدرم کے مطابق گزشتہ رات اس ناکام بغاوت کے دوران ایک ایسا فوجی جنرل مارا بھی گیا، جو اس بغاوت کا حصہ تھا۔

انقرہ سے ملنے والی دیگر رپورٹوں کے مطابق ملکی دارالحکومت کے کچھ حصوں سے ہفتے کی صبح بھی اکا دکا فائرنگ کی آوازیں سنائی دیتی رہیں ۔اس ناکام بغاوت کی بہت سے اعلیٰ فوجی کمانڈروں اور ملک کی چاروں بڑی سیاسی جماعتوں کی طرف سے بھرپور مذمت کی گئی ہے۔ ان سیاسی جماعتوں میں صدر ایردوآن اور وزیر اعظم یلدرم کی حکمران پارٹی اور اپوزیشن کی تینوں بڑی سیاسی جماعتیں شامل ہیں۔

اور اسی فوج کی حکومت نواز اکثریتی قیادت کی طرف سے سختی سے کچل دی جانے والی بغاوت کے قریب بارہ گھنٹے بعد ہفتہ سولہ جولائی کی صبح استنبول سے ملنے والی رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ ترک وزیر اعظم بن علی یلدرم انقرہ میں ملکی پارلیمان کا ایک ہنگامی اجلاس طلب کر لیا۔ ترک میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق اس ناکام بغاوت کے دوران انقرہ میں پارلیمان کی عمارت کو بھی شدید تقصان پہنچا، جس کی وجہ باغی فوجی اہلکاروں کے زیر استعمال جنگی ہیلی کاپٹروں سے کیے جانے والے فضائی حملے بنے۔

ان حملوں اور پھر مسلح بغاوت کے کچل دیے جانے کے بعد سرکاری ٹیلی وڑن سے نشر کی گئی ویڈیو فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح ان حملوں سے پارلیمان کی عمارت کی متعدد دیواریں گر گئیں اور بہت سی کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔ناکام بغاوت کے آغاز پر ترک فوج کے ایک حصے نے متعدد ایف سولہ جنگی طیارے اور جنگی ہیلی کاپٹر اپنے قبضے میں لے لیے تھے۔ ترک نشریاتی اداروں نے یہ بھی بتایا ہے کہ فوجی بغاوت کی اس خونریز کوشش کے دوران کم از کم 264 افراد مارے گئے جبکہ فوج کے قریب تین ہزار اہلکاروں (2839 فوجیوں اور افسران) کو گرفتار بھی کیا جا چکا ہے۔

ان ہلاکتوں کی تصدیق آرمڈ فورسز کے قائم مقام سربراہ جنرل امید دوندار نے کی ہے۔ایک اعلیٰ حکومتی اہلکار کے بقول گرفتار کیے گئے فوجی اہلکاروں میں پانچ جنرل اور کم از کم 29 کرنل بھی شامل ہیں، جنہیں فوج سے برطرف کر کے حراست میں لیا جا چکا ہے۔ وزیر اعظم بن علی یلدرم کے مطابق گزشتہ رات اس ناکام بغاوت کے دوران ایک ایسا فوجی جنرل مارا بھی گیا، جو اس بغاوت کا حصہ تھا۔

تاہم ترک صدر ر جب طیب ارگان کی جاب سے سوشل میڈیا پر بیان جاری ہونے پر ترک عوام ہزاروں کی تعداد میں لبیک کہتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے اور جمہوریت کے حق میں اور فوجی بغاوت کیخلاف مظاہرے شروع کردئیے گئے ،عوام پولیس اور جمہوریت پسند فوج نے زبردست مزاحمت دکھائی ،لوگ فوجی ٹینکوں کے سامنے لیٹ گئے اور سینے تان کر جمہورت کے دفاع میں گولیاں کھائیں ،باغی فوجیوں کی طرف سے عوام کی مزاحمت کو کچلنے کیلئے کولیا ں چلائی گئیں اور ہیلی کاپٹرز کی مدد سے فائرنگ کی گئی ۔

تاہم عوام نے باغیوں کی ایک نہ چلنے دی اور بغاوت کی کوشش کو مکمل طور پر ناکام بنا دیا۔ غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق باغی فوجی گروپ کے اہلکاروں کی جانب سے ایوان صدر اور پارلیمنٹ کا بھی محاصرہ کیا گیا، اتاترک ایئرپورٹ پر تمام پروازیں منسوخ کردی گئیں اور ایئرپورٹ کو بند کردیا گیا، ملک بھر کے ایئرپورٹس بند کرکے ان پر ٹینک پہنچادیئے گئے، باغی فوج کی بھاری نفری نے ملک کے اہم مقامات کا کنٹرول سنبھال لیا جب کہ فوجی گروپ نے ترکی کے سرکاری ٹی وی پر بھی قبضہ کرلیا جب کہ پارلیمنٹ پر بھی حملہ کیا گیا۔

میڈیا کے مطابق ترکی میں فیس بک، ٹوئٹر اور یوٹیوب سمیت سماجی رابطوں کی تمام ویب سائٹس بند کردی گئیں اور ملک میں مواصلاتی نظام مکمل طور پر بند کرتے ہوئے انٹرنیٹ کو بھی بند کردیا گیا ہے۔ بغاوت کی ناکامی کے بعد مغوی آرمی چیف کو ملٹری ایئربیس سے بازیاب کرالیا گیا جب کہ 5 جنرلز اور 29 کرنلز کو ان کے عہدوں سے برطرف کر دیا گیا ہے،ترک حکومت نے تمام اداروں کا کنٹرول دوبارہ سے حاصل کر لیا ہے جب کہ استنبول ایئرپورٹ پر معطل فلائٹ آپریشن بھی بحال کر دیا گیا ہے۔

بغاوت کی کوشش ناکام ہونے کے بعد ترک صدر رجب طیب اردگان نے قوم سے اپنے خطاب میں کہا کہ فوج کے ایک چھوٹے گروپ نے حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی جسے عوام، پولیس اور جمہوریت پسند فوج نے مکمل طور پر ناکام بنا دیا ہے۔ ہم عوام کے ووٹوں سے آئے ہیں اور جمہوریت میں عوام کی طاقت سے بڑی طاقت کوئی نہیں ہوتی، فوج کو بتانا چاہتا ہوں کہ انھیں بھی عوام کی خواہش کے مطابق کام کرنا ہو گا، باغیوں کو پنسلوانیا سے احکامات مل رہے ہیں، جس ہوٹل میں قیام پزیر تھا اس پر بھی بمباری کی گئی لیکن اب میں عوام میں موجود ہوں۔

رجب طیب اردگان کا کہنا تھا کہ فوج کو دشمن کے خلاف استعمال کے لئے اسلحہ اور ٹینک دیئے لیکن فوج کے اس چھوتے سے گروہ نے اپنے ہی لوگوں کے خلاف ہتھیار اٹھا کر بغاوت کی، اس کی انھیں سزا دی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں موقع دیا ہے کہ ہم اپنی فوج سے برے عناصر کا خاتمہ کریں، کچھ لوگ ترکی کو آگے بڑھتا نہیں دیکھنا چاہتے لیکن میں بتایا چاہتا ہوں کہ آج کا ترکی بہت مختلف ہے، ترکی کی خوشحالی کا سفر جاری رہے گا۔

ترکی کے صدر طیب اردوغان نے سازش کا ذمہ دار ملک میں پائے جانے والے ایک ’متوازی نظام‘ قرار دیا، جو کہ امریکی ریاست میامی میں مقیم مبلغ فتح اللہ گولین کی جانب واضح اشارہ تھا۔ صدر اردوغان کا الزام ہے کہ فتح اللہ ترکی میں بے چینی پیدا کرنے ذمہ دار ہیں۔صدر کے بیان کے جواب میں فتح اللہ گیلین نے بھی ایک بیان جاری کیا ہے جس میں انھوں نے اس الزام سے انکار کیا کہ ترکی میں ہونے والے واقعات سے ان کا کوئی تعلق ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ترکی میں فوجی بغاوت کے ذریعے تختہ الٹنے کی کوشش کی سخت ترین الفاظ میں ’مذمت‘ کرتے ہیں۔دریں اثناء ترک وزیراعظم بن علی یلدرم کا پریس کانفرس سے خطاب میں کہنا تھا کہ حکومت نے بغاوت کی کوشش مکمل طور پر ناکام بنادی ہے اور حکومت نے تمام اداروں کا مکمل کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ باغیوں کے کنٹرول میں موجود گن شپ ہیلی کاپٹرز اور جیٹ طیاروں کو مار گرانے کے احکامات جاری کر دیئے گئے ہیں جب کہ جنرل امیت دندار کو فوج کا قائم مقام سربراہ مقرر کر دیا گیا ہے۔

د وزیر اعظم بینالی یلدرم نے کہا کہ یہ کوشش ناکام بنا دی گئی ہے اور اس کی منصوبہ بندی کرنے والوں کو ’انصاف کے کٹہرے‘ میں لایا جائے گا۔وزیر اعظم یلدرم کا کہنا تھا کہ تختہ الٹنے کی ناکام سازش میں شریک اعلیٰ افسران سمیت 2,839 سپاہیوں کو حراست میں لے لیا گیا۔وزیر اعظم کے بقول ’ترکی میں جمہوریت پر سیاہ دھبہ ہے ، اس کی منصوبہ بندی کرنے والوں کو ’انصاف کے کٹہرے‘ میں لایا جائے گا۔

وزیراعظم بن علی یلدرم نے کہا کہ ملک کے حالات ’مکمل کنٹرول‘ میں ہیں اور فوج کی کمان وفادار کمانڈروں کو سونپی گئی ہے۔دوسری جانب قائم مقام آرمی چیف جنرل ارمی دندار نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ فوجی ٹولے کی بغاوت کو مکمل طور پر ناکام بنا دیا گیا ہے، ترک حکومت کا کہنا ہے کہ بغاوت کی سازش مبینہ طور پر فتح اللہ گولین نے بنائی جبکہ انھوں نے اس کی تردید کی ہے۔

صدر اردگا ن رات کو ہی بیرونِ ملک سے واپس استنبول پہنچ گئے اور ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے ایک بار پھر ملک کا انتظام سنبھال لیا ہے۔صدر اردوغان نے اس فوجی اقدام کو ’ملک سے بغاوت‘ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ فوج میں صفائی ہونی چاہیے۔ ادھر بغاوت کرنے والے 8 اہلکار فوجی ہیلی کاپٹر میں سوار ہوکر یونان پہنچ گئے ہیں جنہیں یونان کے سیکیورٹی اہلکاروں نے اپنی حراست میں لے لیا ہے، ترک حکام نے ان اہلکاروں کی حوالگی کا باضابطہ مطالبہ بھی کردیا ہے جب کہ روسی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ باغیوں کے ایک جتھے نے ترکی کا جنگی بحری جہاز یرغمال بنالیا ہے تاہم اس کی سرکاری طور پر اس کی تصدیق یا تردید نہیں کی گئی۔

ترکی میں ناکام فوجی بغاوت میں شریک متعدد اعلیٰ افسروں نے ایک جنگی ہیلی کاپٹر کے ذریعے یورپی یونین کے رکن اور قبرص کے تنازعے میں ترکی کے حریف ملک یونان پہنچ کر وہاں سیاسی پناہ کی درخواست دے دی ہے۔ یونانی دارالحکومت ایتھنز سے پورٹوں کے مطابق ترک فوج کے ایک جنگی ہیلی کاپٹر میں سوار یہ افسران مقامی وقت کے مطابق قبل از دوپہر شمال مشرقی یونان میں الیگزانڈروپولس (Alexandroupolis) کے ہوائی اڈے پر اترے۔

یونانی پولیس کے اعلیٰ حکام نے بتایا کہ ’بلیک ہاک‘ طرز کے ایک فوجی ہیلی کاپٹر میں سوار ان ترک شہریوں کی تعداد آٹھ ہے، اور انہوں نے یونانی سرزمین پر اترتے ہی اپنے لیے سیاسی پناہ کی درخواست کر دی۔یونان کے سرکاری ٹیلی وڑن چینل ای آر ٹی (ERT) نے بتایا کہ یونانی فضائی حدود میں داخل ہوتے ہی اس ہیلی کاپٹر کے پائلٹ کی طرف سے شمال مشرقی یونان کے اس شہر میں ایئرپورٹ پر کنٹرول ٹاور کے عملے کو ’ہنگامی حالت میں مدد کی درخواست‘ کا سگنل بھیجا گیا تھا۔

پھر اس ترک فوجی ہیلی کاپٹر کے وہاں اترنے پر پتہ چلا کہ اس میں سوار آٹھ میں سے سات افراد ترک فوج کے اہلکار تھے، جو اپنی وردیاں بھی پہنے ہوئے تھے۔ ان کے ساتھ یونان پہنچنے والا آٹھواں ترک شہری ایک سویلین بتایا گیا ہے۔ان ترک باشندوں میں سے فی الحال کسی کا بھی نام یا فوجی عہدہ معلوم نہیں ہوا تاہم کچھ ہی دیر بعد یہ بات تقریبا یقین کی حد تک ثابت ہو گئی کہ یہ تمام غیر ملکی ترکی میں ناکام رہنے والی فوجی بغاوت میں ملوث تھے۔

الیگزانڈروپولس سے موصولہ نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق یونانی حکام نے ان تمام ترک فوجی اہلکاروں کو ان کے ہمراہ آنے والے سویلین باشندے سمیت گرفتار کر لیا ہے، جنہوں نے مقامی پولیس کے ساتھ اپنی بات چیت میں فوری طور پر یہ اعلان کیا کہ وہ یونان میں اپنے لیے سیاسی پناہ کے خواہش مند ہیں۔یونانی پولیس نے ان ترک اہلکاروں کے بارے میں بتایا کہ انہیں یونان میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے پر گرفتار کیا گیا ہے۔

فوری طور پر یہ واضح نہیں کہ آیا انہیں یونان میں سیاسی پناہ دی جائے گی یا نہیں۔ ماہرین کے مطابق بظاہر یہ امکان بہت کم ہے کہ ان مفرور ترک فوجی اہلکاروں کو یونان اپنے ہاں پناہ دے دے گا۔ایتھنز میں یونانی وزارت دفاع کی طرف سے کہا گیا ہے کہ اس فوجی ہیلی کاپٹر کے پائلٹ نے مقامی وقت کے مطابق کنٹرول ٹاور کو صبح 10 بج کر 45 منٹ پر ایک ایمرجنسی سگنل بھیجا تھا، جس کے صرف چھ منٹ بعد یہ ہیلی کاپٹر الیگزانڈروپولس ایئر پورٹ پر اتر بھی گیا تھا۔

ترکی کی سرکاری خبر رساں ایجنسی کا کہنا تھا کہ بغاوت کی سازش تیار کرنے والوں نے ایک دوسرے سے وٹس ایپ گروپ کے ذریعے رابطے کیے۔ اْن کے درمیان ہونے والی بات چیت کے مطابق ’استبول جانے والی ٹریفک کو بلاک کرنے اور حکومت کی ایمرجنسی کیمونیکیشن کے رابطے کو ختم کرنے کی ہدایت کی گئی۔واٹس ایپ پر اس طرح کے مبینہ پیغامات کی ویڈیو بھی منظر عام پر آئی ہیں۔

ادھر استنبول ائیر پورٹ پر 200 سے زائد پاکستانی پھنس گئے۔ پاکستانی مسافر کا کہنا ہے کہ پروازیں لینڈ تو کررہی ہیں اڑان نہیں بھر رہیں۔ترجمان پاکستانی سفارت خانہ عبدالاکبر کے مطابق اسلام آباد اور کراچی کیلئے پروازیں روانہ کی جا رہی ہیں، پاکستانی مسافر ترکش ائرلائن کے کاؤنٹر پر پہنچ جائیں۔ترجمان کا کہنا ہے کہ پاکستانی مسافروں کی فلائٹس ری شیڈول کرائی جا رہی ہیں، تمام پاکستانی ترکی میں محفوظ ہیں،کسی پاکستانی کوزخم نہیں آئے۔

جبکہ زیراعظم نواز شریف نے استنبول میں پھنسے پاکستانیوں کیلئے اقدامات کی ہدایت کردی۔وزیر اعظم نواز شریف کا کہنا ہے کہ استنبول میں پھنسے پاکستانیوں کی واپسی کیلئے ہر ممکن اقدام کیے جائیں اور خصوصی پروازوں کی ضرورت ہو تو ان کا بھی انتظام کیا جائے۔و زیراعظم نواز شریف نے استنبول میں پاکستانی سفارتی عملے کو پاکستانیوں کی مناسب دیکھ بھال کی بھی ہدایت کی۔

دوسری جانب ترکی میں ایک فوجی گروپ کی جانب سے ملک کا کنٹرول سنبھالنے کی کوشش کی عالمی سطح پر مذمت کی گئی ہے ۔ پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے ترکی میں فوج کی جانب سے بغاوت کی کوشش کی مذمت کی۔ نواز شریف نے اپنے بیان میں کہا کہ بغاوت کی کوشش کو ناکام بنانے میں ترکی کے عوام کا بھرپور کردار قابلِ ستائش ہے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان ترکی کی جمہوری حکومت کے ساتھ ہے اور اس موقع پر ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان اور عوام کے ساتھ ہیں۔

امریکی صدر براک اوباما نے ترکی کی تمام سیاسی جماعتوں کے نام پیغام میں کہا ہے کہ وہ ’جمہوری طور پر منتخب ہونے والی حکومت کا ساتھ دیں،وائٹ ہاوٴس سے جاری بیان میں ترکی کی سیاسی جماعتوں سے کہا گیا ہے کہ وہ مزاحمت کریں اور تشدد اور خونریزی سے بچیں۔ادھر روس کے دورے پر آئے امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری نے ترکی کے وزیرِ خارجہ سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ ترکی کی منتخب حکومت اور جمہوری اداروں کی مکمل حمایت کرتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکی ترکی میں رونما ہونے والے واقعات کو تشویش کی نظر سے دیکھ رہا ہے۔روس کے وزیرِ خارجہ سرگے لاروف کا کہنا ہے کہ ترکی کے مسائل کو اس کے آئین کیمطابق حل کرنے کی ضرورت ہے۔کریملن کے ترجمان دیمتری پیسکوو کا کہنا ہے کہ روس کو ترکی سے آنے والی اطلاعات پر شدید تشویش ہے۔ترجمان کے مطابق روس کی اولین ترجیع ترکی میں موجود اس کے شہریوں اور اداروں کی حفاظت ہے۔

دیمتری پیسکووکے مطابق ترکی ایک اہم علاقائی طاقت ہے اور ترکی کا استحکام یقیناً خطے کے لیے بہت ضروری ہے۔اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کے ترجمان کے مطابق ادارے کے سربراہ نے امن برقرار رکھنے کی اپیل کی ہے۔ترجمان کے مطابق بان کی مون ترکی میں رونما ہونے والے واقعات کو قریب سے دیکھ رہے ہیں اور انھیں ایک فوجی گروپ کی جانب سے اقتدار پر قبضہ کرنے کی کوشش کے بارے میں علم ہے۔

جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے کہا ہے کہ ترکی میں ’جمہوری عمل کی تکریم کی جانی چاہیے۔‘برطانیہ کے وزیرِ خارجہ بورس جانسن نے ترکی میں ہونے والی اس پیش رفت پر تشویش کا اظہار کیا ہے جبکہ ترک سفارتخانے نے برطانوی شہریوں سے کہا ہے کہ وہ عوامی مقامات پر جانے سے گریز کریں،ترکی کے مسائل آئین کے مطابق حل کرنے کی ضرورت ہے ،ادھر یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ فیڈریکا موغرینی نے ترکی میں رجب طیب اردوغان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کے خلاف مزاحمت کرنے کو کہا ہے۔

خلیجی مالک میں ترکی کے اہم اتحادی ملک قطر کی جانب سے جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی مذمت کی گئی ہے۔ایران کی جانب سے بھی ترکی کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ایران کے وزیرِ خارجہ جواد ظریف نے کہا کہ ہے ترکی کا استحکام، جمہوریت اور ترک عوام کا تحفظ بہت اہم ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ’اتحاد اور دوراندیشی لازمی ہے ۔

متعلقہ عنوان :