موسم کی پیشن گوئی کے لیے استعمال ہونیوالے ٹیکنیکل آلات اور ریڈار زائد المعیادہونے کا انکشاف

موسم کی صورتحال جاننے کے لیے 22ریڈاروں کی ضرورت ہے جبکہ پاکستان میں صرف 7ریڈار لگے ہوئے ہیں وہ بھی زائد المعیاد ہو چکے ہیں،ڈاکٹر اسرار پاکستان کے پاس جدید ٹیکنالوجی نہ ہونے کے باعث بارشوں کی پیشگوئی کرنے میں دشواری ہوتی ہے، و زیر اعظم کو رپورٹ پیش کردی گئی ہے انہوں نے آئندہ 6سال کے بعدآلات خریدنے کا فیصلہ کیا ہے،ڈی جی میٹ کی سینٹ قائمہ کمیٹی موسمیاتی تبدیلی کو بریفنگ

منگل 28 جون 2016 10:04

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔28جون۔2016ء)وزارت موسمیات تبدیلی کے پاس موسم کی پیشن گوئی کے لیے استعمال ہونے والے ٹیکنیکل آلات اور ریڈار زائد المعیادہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ میٹرولوجیکل حکام کے مطابق سیالکوٹ میں موسم کی پیشگوئی کے لیے استعمال ہونے والے ریڈار 1978میں لگایا گیا تھا اور ہر ریڈار کی عمر 10سال ہوتی ہے جبکہ پاکستان میں تمام ریڈار 20سال پرانے ہو چکے ہیں اور ان سے ابھی بی کام لیا جا رہا ہے جس سے موسم کی پیشگوئی کرنے کو ہوائی آپریشن کے لیے موسم کی معلومات میں بھی مشکلات ہے جس سے کوئی بھی نقصان ہو سکتا ہے۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے موسمیاتی تبدیلی کا اجلاس گزشتہ روز پارلیمنٹ میں چئیر کمیٹی محمد یوسف بارینی کی زیر صدارت ہوا ہے ۔کمیٹی نے سفارش کی کہ زائد المعیاد و آلات اور ریڈار کو تبدیلی کرنے کے لیے فوری اقدامات کیئے جائیں اور عالمی سطح پر ممکنہ موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے آئندہ اجلاس بھو ر بھن(مری ) میں طلب کر لیا گیا ہے اور تفصیلی رپورٹ پر جائزہ لیا جائے گا۔

(جاری ہے)

قائمہ کمیٹی کے پیر کے روز اجلاس میں ڈی جی میٹ ڈاکٹر اسرار نے قائمہ کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ موسم کی صورتحال جاننے کے لیے 22ریڈاروں کی ضرورت ہے جبکہ پاکستان میں صرف 7ریڈار لگے ہوئے ہیں وہ بھی زائد المعیاد ہو چکے ہیں۔زائد المعیاد اور ناکارہ ریڈار ہونے کی وجہ سے موسم کی پیشن گوئی کرنے میں شدید دشواری کا سامنا ہوتا ہے ،ا نہوں کے کہا کہ کستان کے پاس جدید ٹیکنالوجی نہ ہونے کے باعث بارشوں کی پیشگوئی کرنے میں دشواری ہوتی ہے ،سیلاب اور قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے بروقت اقدامات کرنے میں ناکامی ہوتی ہے جس سے سینکڑوں جانیں اور اربوں روپے کا مالی نقصان ہوتا ہے۔

میٹرولوجیکل حکام کا کہنا تھا کہ پوری دنیا مین موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی جا رہی ہے اور ہمارے پاس موجود موسمیاتی آلات اور ریڈار زائد المعیاد ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ سیالکوٹ میں موسمیاتی معلومات کے لیے نصب ریڈار 37سال پرانا ہے اور دیگر تمام ریڈار بھی زائد المعیاد ہو چکی ہے اور تاحال ان سے کام لیا جائے گا۔

ان کے مطابق ریڈار کی عمر 10سال ہوتی ہے جبکہ وزارت موسمیاتی تبدیلی کے پاس تمام ریڈار بیس بیس سال پرانے ہیں اور ان سے کام لینے کی کوشش جاری ہیاور ان22ریڈار کی اشد ضرورت ہے مگر فنڈز نہ ہونے کے باعث ہوائی آپریشن کے لیے موسمیاتی صورتحال جاننے میں دشواری ہے جس سے انسانی جانوں کوشدید خطرہ ہو سکتا ہے اور اس حوالے سے وزیر اعظم میاں نواز شریف کو رپورٹ پیش کردی گئی ہے اوروزیر اعظم نواز شریف نے آئندہ 6سال کے بعدآلات خریدنے کا فیصلہ کیا ہے۔

وزارت موسمیاتی تبدیلی کے اعلیٰ حکام نے کمیٹی کو بتایا ہے کہ صوبہ بلوچستان میں دو روز میں طوفانی بارشون کا امکا ن ہے اور مون سون بارشوں کے باعث دور دراز آبادیوں کو شدید نقصان پہنچنے کا امکان ہے اور اس حوالے سے صوبہ بلوچستان کو معلومات دے دی گئی ہیں۔سیکرٹری موسمیاتی تبدیلی نے کہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے معاملات ٹکڑوں میں تقسیم ہوا ہے اور مختلف اداروں ملا کر کام ہو سکتاہے۔

انہوں نے کہا کہ ذمہ داریوں کا تعین مشکل ہے اور پوری دنیا میں موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔اس موقع پر موجود این ڈی ایم اے کے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ این ڈی ایم اے مکمل طور پر وزارت موسمیاتی تبدیلی کے ساتھ تعاون کر رہا ہے اور موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے متعدد رپورٹ بھی تیار کی گئی ہے جن کو متعلقہ وزارت کو مہیاکیا گیا ہے۔

حکام کے مطابق موسم کی صورتحال جاننے کے لیے رینج کو بڑھانے کی ضرورت ہے اور فنڈز کی کمی کے باعث جدید ٹیکنیکل آلات حاصل نہیں کی جارہی ہے اور مختلف ضلعوں میں نصب 48آلات میں سے18خراب ہونے کی صورت میں بند کر دیے ہیں۔این ڈی ایم اے حکام نے مون سون بارشوں اور سیلاب کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے تمام ضروری بارشوں اور سیلاب کی صورتحال سے نمٹنے کے لے تمام ضروری اشیاء کی سٹاک اور طریقہ کار سے بھی کمیٹی کو آگاہ کیا ہے۔

انہوں نے بتایا ہے کہ صوبائی حکام سے مکمل تعاون کیاجا رہا ہے اور تمام ناگہانی حالات سے نمٹنے کے لیے اقدامات مکمل کیے جا رہے ہیں۔سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو سی ڈی اے کے ممبر ماحولیات نے بتایا ہے کہ سی ڈی اے کی طرف سے عارضی ور پر ہر سال 300ملازمین نیشنل پارک کے لیے رکھے جاتے ہیں اور ہر ملازم کو 1200ماہانہ معاوضہ دیتا ہے اور ان کو ملامت سے نکالنے پر وہ لوگ جنگل میں آگ لگا دیتے ہیں اور اس حوالے سے اسلام آباد پولیس کے ساتھ مل کر اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

چےئرمین سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے موسمیاتی تبدیلی محمد یوسف نے کہا ہے کہ ہماری حکومت موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے سنجیدہ نہیں ہے اور جلد اقدامات کی ضرورت ہے جس پر اس معاملے کو پارلیمنٹ میں اٹھانے کی بھی ضرورت ہے۔سینیٹر شاہد حسین سید نے کہا ہے کہ میٹرولوجیکل ڈیپارٹمنٹ کو وزارت موسمیاتی تبدیلی کے ما تحت کیا جائے کیونکہ موسم کی صورتھال کے لیے اس ادارے کا اہم کاردار ہوتاہے ۔

سینیٹر ستارہ بانو نے کہا ہے کہ موسم کی بروقت پیشگوئی نہ ہونے سے کلثوم پروین نے کہا ہے کہ بلوچستان میں صرف 10گھنٹے قبل فلڈ وارننگ دی گئی ہے جس سے اقدامات کرنا ناممکن ہے۔سینیٹر تاج حیدر نے کہا ہے کہ پورٹ قاسم پر ایل این ٹرمینل لگنے سے اماحولیات تباہ ہو جائے گی اور ایل این جی ٹرمینل بناتے وقت ماحولیات کو مد نطر رکھا جائے جس پر وزارت پیٹرولیم و قدرتی وسائل کے حکام نے بتایا کہ ایل این جی ٹرمینل کے لیے ایک فزیبیلیٹی رپورٹ بنائی جا رہی ہے اور تمام متعلقہ اداروں سے منظوری کے بعد کام شروع کیا جا سکے ۔

اجلاس میں ممبران کمیٹی سینیٹر ستارہ ایاز ،تربت صادق،وقاتی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید،سینیٹر سمینہ عابد ،سینیٹر مشاہد حسین سید اور خصوصی طور پر مدعو سینیٹر تاج حیدر اور کلثوم پروین نے شرکت کی۔