وزارت داخلہ اور آئی جی پولیس کی جانب سے پولیس کو لامحدود اختیارات دینے کا انکشاف

شہریوں کو لاک اپ میں رکھنا، تشدد ،آنکھوں پر پٹیاں باندھنا ، گھسیٹنا شامل، وفاقی پویس کی نئی ایس او پی سامنے آگئی وزارت داخلہ اور وفاقی پویس کی جانب سے خود ساختہ خاموشی انصاف کو رسوا کرنے کے مترادف

جمعرات 23 جون 2016 09:42

اسلام آباد( اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔23جون۔2016ء ) وزارت داخلہ اور آئی جی پولیس کی جانب سے پولیس کو لامحدود اختیارات دینے کا انکشاف ہوا ہے ،عام شہریوں کو لاک اپ میں رکھنا، تشدد کرنا،آنکھوں پر پٹیاں باندھنا اور گھسیٹنا اور شہریوں کو جینے کے قابل ہی نہ چھوڑنا،وفاقی پویس کی نئی ایس او پی سامنے آگئی ہے،وزارت داخلہ اور وفاقی پویس کی جانب سے خود ساختہ خاموشی انصاف کو رسوا کرنے کے مترادف ہو گئی ہے ۔

خبر رساں ں ادارے کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق پنڈوڑیاں سائیں دربار کے بااثر افراد نے ایک عمر رسیدہ شہری کو محض اس لیے سی آئی اے میں اپنے چیلے کے ہتھے چڑھا دیا کہ اس بزرگ شہری نے بااثر افراد کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے دوکان کے سامنے موٹر سائیکل کھڑی کر دی تھی۔

(جاری ہے)

اے ایس آئی حید ر علی شاہ نے دونوں شہریوں کو اس انداز سے اٹھایا جیسا کہ وہ کسی بڑے دہشت گردی کے مقدمہ میں ملوث ہوں ۔

سی آئی اے سینٹر میں روزہ دار مزدوروں کو لے جا کر حبس بے جا میں نہ صرف رکھا گیا بلکہ تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا ۔پولیس اے ایس آئی شاہ جی حیدر مزدوروں کو کہنے لگا کہ ایک کلو چرس کا مقدمہ بنا کر انہیں ایک سال کے لے جیل بھجوا سکتے ہیں ،روزہ داروں کی منت سماجت کے بعد 8ہزار روپے رشوت دیکر رہائی پائی اور ساتھ دھمکی بھی ملی کہ اگر انہوں نے کسی کے سامنے ذکر تک کیا تو پھر تھانہ بند کرکے خطرناک مقدمہ میں پھنسا دیں گے۔

معلومات کے مطابق گزشتہ روز پنڈوڑیاں کے رہائشی دیہاڑی دار مزدور یوسف خان اور بائیس سالہ ریڑھی بان شائستہ رحمان پنڈوڑیاں میں واقع ایک عزیز معمور خان کی سبزر کی دوکان کے سامنے موجود تھے موٹرسائیکل پر دونوجوان دکان پر سبزی لینے آئے جنہوں نے دکان کے سامنے راستے میں ہی موٹرسائیکل کھڑی کردی۔جس پر انہیں دکان کے سامنے سے موٹرسائیکل ہٹانے کا کہا گیا تووہ برامان گئے اوراس بات پر ان کے درمیان تلخی ہوگئی اورغلیظ زبان استعمال کرنے پر ہاتھا پائی شروع ہوگئی۔

دونوں نوجوانوں نے پہلے انہیں ماراپیٹا اس کے بعد وہ وہاں سے چلے گئے اوردس منٹ کے بعد پندرہ سے بیس افراد کو لے کر آگئے۔جنہوں نے آتے ہی دونوں مزدوروں کوخوب درگت بنائی اوردھمکیاں دیتے ہوئے چلے گئے۔تقریباً آدھے گھنٹے کے بعد سفیدرنگ کی کرولا ایکس ای گاڑی میں سوار سادہ کپڑوں میں ملبوس تین پولیس ملازمین موقع پر آگئے جن میں سے ایک اے ایس آئی سیدحیدرعلی شاہ اوردیگرنا معلوم ملازمین شامل تھے۔

جنہوں نے آتے ہی دونوں مزدوروں کو ہتھکڑیاں پہنا ئیں اوران کی آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر انہیں تشددکرتے ہوئے گاڑی میں بٹھایا اورآئی نائن میں واقع سی آئی اے سنٹرلے آئے جہاں اڑھائی گھنٹے تک دونوں کو حبس بے جا میں رکھتے ہوئے تشددکرتے رہے۔دوسری طرف مزدوروں کے لاپتہ ہونے پران کے ورثاء نے ان کی تلاش شروع کردی اور تھانہ کھنہ جاکر پتہ کیا توتھانہ کھنہ پولیس نے لاعلمی کا اظہار کیا۔

جس پر وہ واپس ان لوگوں کے پاس پنڈوریاں دربارپر چلے گئے جن کے ساتھ جھگڑا ہوا تھا۔جس پرحملہ آورپارٹی نے انہیں بتایا کہ پولیس تمہارے رشتہ داروں کو سی آئی اے سنٹرلے گئی ہے۔تاہم دربارپر دونوں پارٹیوں کے درمیان بات چیت کے بعد صلح صفائی ہوگئی۔جس پرپولیس کے چنگل سے دونوں مزدوروں کو نکالنے کے لئے دونوں پارٹیاں سی آئی اے سنٹرپہنچ گئیں۔

اس دوران اے ایس آئی حیدرعلی شاہ ان غریب مزدوروں پر ایک کلوچرس ڈالنے اورجیل بھجوانے کی دھمکیاں دیتے ہوئے انہیں ہراساں کررہا تھا۔جب اسے بتایا گیا کہ ہماری آپس میں صلح ہوگئی ہے تووہ آئیں بائیں شائیں کرنے لگا۔بعدازاں جامعہ تلاشی کے دوران مزدوروں کی جیب سے نکلنے والی رقم تین ہزارکے علاوہ ان سے جان خلاصی کے لئے تین ہزارروپے مزید لے لئے جبکہ حملہ آورپارٹی سے بھی پولیس نے ''حق زحمت'' کے نام پر دوہزارروپے لے لئے۔

یوں آٹھ ہزارروپے کی ''دیہاڑی'' لگاکر ایس آئی یوپولیس کے جوانوں نے غریب محنت کش کوافطاری سے کچھ دیرقبل تھانے سے رخصت کردیا۔متاثرہ افرادشائستہ رحمان،یوسف خان اوران کے قریبی عزیزرضوان خٹک نے پولیس حکام سے نوٹس لینے کا مطالبہ کیاہے۔موقف جاننے کے لیے اے ایس آئی سے رابطہ کیا تو انہوں نے فو ن موصول نہ کیا ہے ۔

متعلقہ عنوان :