دہشتگردی کے جڑ سے خاتمہ کیلئے بارڈر مینجمنٹ بہت ضروری ہے،افغان بارڈر پر باڑ لگائے جانے کا عمل جاری رہے گا،سرتاج عزیز

افغان بارڈر کھلا رہا تو ہمارے قبائلی علاقے محفوظ نہیں رہیں گے،کسی کی جنگ میں شامل نہیں ہونگے،کسی نے حملہ کیا تو اس کا موثر اور بھرپور جواب دیا جائے گا،بھارت کو 8 نکاتی ایجنڈا دیا ہے،اس کے بغیر مذاکرات نہیں کرینگے وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز کی نجی ٹی وی چینل سے گفتگو

منگل 21 جون 2016 10:10

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔21جون۔2016ء) وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ دہشتگردی کے جڑ سے خاتمہ کیلئے بارڈر مینجمنٹ بہت ضروری ہے، اس لئے افغان بارڈر پر باڑ لگائے جانے کا عمل جاری رہے گا، ضرب عضب میں بلاتفریق آپریشن کرتے ہوئے ہم نے دہشتگردوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے لیکن اگر افغان بارڈر کھلا رہا تو ہمارے قبائلی علاقے محفوظ نہیں رہیں گے، بارڈر مینجمنٹ ضروری ہے لہذا طورخم کے علاوہ بھی بارڈر محفوظ بنائیں گے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کو ایک نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ کسی کی جنگ میں شامل نہیں ہونگے لیکن اگر کسی نے حملہ کیا تو اس کا موثر اور بھرپور جواب دیا جائے گا۔

(جاری ہے)

مشیر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ حدود بندی کے بعد بغیر دستاویز کے کسی کو بھی اپنے ملک میں نہیں آنے دیا جائے گا اور انہی معاملات کو طے کرنے کیلئے افغان حکام کو بھی دعوت دی تھی۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم نے لاکھوں افغان مہاجرین کی مہمان نوازی کی لیکن افغان مہاجرین کی مرحلہ وار واپسی کا عمل اب شروع ہو جانا چاہیے۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بھارت کے ساتھ ہمارے تعلقات کشمیر کے مسئلے کی وجہ سے کشیدہ رہے ہیں، دنیا جانتی ہے کہ پاکستان مذاکرات چاہتا ہے اور کشمیر سمیت تمام مسائل کا پرامن حل چاہتا ہے، بھارت کو ہم نے 8 نکاتی ایجنڈا دیا ہے، اس لئے بھارت کو چاہیے کہ وہ 8 نکات مانے ورنہ مذاکرات نہیں ہونگے کیونکہ ان نکات میں دہشتگردی کے ساتھ ساتھ مسئلہ کشمیر بھی شامل ہے جس کا حل بھی بہت ضروری ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اوفا معاہدے میں بھی ہم نے مسئلہ کشمیر سمیت تمام مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کر نے پر زور دیا۔ ایک اور سوال کے جواب میں سرتاج عزیز نے کہا کہ وزیراعظم محمد نواز شریف کے آپریشن سے قبل بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے فون کر کے وزیراعظم محمد نواز شریف کی بیمار پرسی کی جو دیگر ملکوں کے رہنماؤں نے بھی کی۔ انہوں نے کہاکہ آج نریندر مودی کے دوروں کو تو بہت سراہا جا رہا ہے لیکن دوسری جانب جب وزیراعظم محمد نواز شریف غیر ملکی دورے کریں تو ان پر تنقید کی جاتی ہے جو کہ درست نہیں۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حکومتی پالیسی کے نتائج دیرپا ہونگے، ہم اپنے تمام ہمسایہ ممالک سے بہتر تعلقات کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں اور نہ صرف چین بلکہ دیگر ملکوں سے بھی معاشی و اقتصادی تعلقات میں اضافہ کیا جا رہا ہے، چین جو کہ ہمارا مخلص اور دیرینہ دوست ہے، سے ہمارے تاریخی تعلقات ہیں جو گزشتہ 3 سالوں میں اور بھی بہتر اور مضبوط ہو گئے ہیں۔

پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کی تکمیل نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کیلئے فائدہ مند ثابت ہوگی۔ ایک اور سوال کے جواب میں مشیر خارجہ نے کہا کہ نیوکلیئر پروگرام بغیر کسی دباؤ کے جاری رہے گا اور اس پر کسی سے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ نیو کلیئر سپلائر گروپ (این ایس جی) کے حوالے سے کی جانے والی سفارتی کوششوں کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس پر ہم نے کافی کام کیا ہے اور اس کے 48 کے 48 ممبرز سے پاکستان نے رابطے کئے ہیں جن میں آدھے سے زائد ممالک نے پاکستانی موقف کی تائید بھی کی ہے اور کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کو ایک ساتھ ہی نیوکلیئر سپلائر گروپ میں شامل کیا جانا چاہیے۔

شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) میں پاکستان کی شمولیت کے حوالے سے سوال کے جواب میں مشیر خارجہ نے کہا کہ ایس سی او کا خطے میں کردار پہلے سے بھی زیادہ اہم ہو گیا ہے، اس لئے اس کی رکنیت سے بھی خطے کو استحکام حاصل ہوگا۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جی ایچ کیو میں ہونے والی میٹنگ میری تجویز پر ہوئی جو کہ ضروری تھی، بلوچستان میں ہونے والے ڈرون حملہ کے حوالے سے افواج پاکستان نے کچھ پریذنٹیشنز دینی تھیں جن کی سہولت ادھر نہیں تھی اس لئے وہاں گئے، میٹنگ میں شریک دیگر وزراء کو بھی میں نے ہی اطلاع دی تھی اور اس میٹنگ کو کوئی بھی چیئر نہیں کر رہا تھا بلکہ ہم سب آمنے سامنے بیٹھے ہوئے تھے،۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ایف۔16 طیاروں کیلئے اب ہم متبادل تلاش کر رہے ہیں جس پر ہماری ایئر فورس اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ایران کے ساتھ ہماری تلخی بڑھنے کا تاثر غلط ہے، ایران پاکستان گیس پائپ لائن ایران پر پابندیوں کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوئی، ہم گوادر سے نوابشاہ تک ایل این جی لائن بنا رہے ہیں اور پابندیاں ہٹ جانے کے بعد اسے ایران سے ملا دیا جائے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایران نے ہمیں یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ اپنی سرزمین ہمارے خلاف کسی کو بھی استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ ایک اور سوال کے جواب میں سرتاج عزیز نے کہا کہ پٹھان کوٹ واقعے میں کسی بھی پاکستانی کے ملوث ہونے کے کوئی شواہد نہیں ملے اور اگر کسی کے ملوث ہونے کے شواہد ملے بھی تو پاکستان خود اس کے خلاف کارروائی کرے گا۔