کیلاش :14سالہ لڑکی کا تبدیلی مذہب کا معاملہ حل

لڑکی نے جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے اپنی مرضی سے اسلام قبول کرنے کا اعتراف کرلیا میڈیا نے لوٹنے کی افواہ پھیلائی جس سے مسلم کالاش تنازعہ کھڑاہواجوانتہائی قابل مذمت ہے،مسلم اورکالاش صدیوں سے اکٹھے پرامن رہ رہے ہیں،چترال میں پریس کانفرنس سے خطاب

ہفتہ 18 جون 2016 09:41

چترال (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔18جون۔2016ء) صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع چترال میں ایک 14 سالہ کالاشی لڑکی کے تبدیلی مذہب کے معاملے پر شروع ہونے والے جھگڑے کا خاتمہ اْس وقت ہوا جب لڑکی نے جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے اپنی مرضی سے اسلام قبول کرنے کا اعتراف کیا۔اس واقعے کی تصدیق چترال کے ڈپٹی کمشنر(ڈی سی) اسامہ وڑائچ نے بھی کی۔یاد رہے کہ گذشتہ روز یعنی 16 جون کو وادی کالاش کے علاقے بمبوریت میں کالاش قبیلے اور مسلمان کمیونٹی کے سیکڑوں افراد کا ایک لڑکی کے تبدیلی مذہب کے معاملے پر تصادم ہوگیا تھا، جس کے بعد پولیس کو مشتعل افراد کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کرنا پڑا۔

پولیس کے مطابق کالاشی لڑکی نے اپنا گھر چھوڑ کر ایک مقامی مسلمان کے گھر پر اسلام قبول کیا تھا۔

(جاری ہے)

میڈیا رپورٹ کے مطابق کیلاش میں سرگرم سماجی رہنما لیوک رحمت نے بتایا کہ 9 ویں جماعت کی طالبہ مذکورہ لڑکی کو اسلام قبول کرنے کے بعد اس بات کا احساس ہوا کہ شاید اس نے غلطی کردی ہے، جس کے بعد وہ اپنے گھر واپس چلی گئی۔لیوک کے مطابق بعد ازاں گاوٴں کے رہائشی جمع ہوئے اور انھوں نے لڑکی کے رشتے داروں پر الزام لگایا کہ وہ اسے زبردستی اپنے ساتھ لے گئے ہیں اور اسے دوبارہ مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کر رہے ہیں، جس کے بعد مسلمان کمیونٹی اور کالاش قبیلے کے لوگوں میں تصادم ہوگیا۔

دوسری جانب پولیس نے بتایا کہ کالاش قبیلے کے لوگوں کا خیال تھا کہ مذکورہ نوعمر لڑکی کو مذہب تبدیل کرنے کے لیے مجبور کیا گیا۔بعدازاں جمعہ 17 جون کو چترال کے ڈپٹی کمشنر اسامہ وڑائچ اپنے عملے ساتھ وادی چترال پہنچے اور کالاش قبیلے اور مسلمان کمیونٹی کے عمائدین کا ایک جرگہ بلوایا۔اسامہ وڑائچ نے کہا کہ جرگے میں اس معاملے پر مکمل بحث کی گئی اور قبیلے نے اس بات پر اتفاق کیا کہ لڑکی کا بیان حتمی ہوگا اور اسے قبول کیا جائے گا۔

انھوں نے بتایا کہ انتظامیہ نے لڑکی کو چترال ٹاوٴن منتقل کردیا اور اسے جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ڈپٹی کمشنر اسامہ ورائچ کے مطابق لڑکی نے مجسٹریٹ کے سامنے ریکارڈ کروائے گئے اپنے بیان میں کہا کہ اسے کسی نے بھی اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا اور اس نے یہ فیصلہ اپنی مرضی سے کیا تھا۔اسامہ کا کہنا تھا کہ لڑکی کے اہلخانہ اور کالاش قبیلے کے افراد نے لڑکی کے بیان کو قبول کرلیا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ، 'اب یہ لڑکی پر منحصر ہے کہ وہ اپنے کالاشی خاندان کے ساتھ رہے گی یا دیگر رشتے داروں کے ہمراہ۔اسامہ وڑائچ نے مزید بتایا کہ واقعے کی ایف آئی آر درج کرلی گئی جبکہ ضلعی انتظامیہ اور پولیس کی جانب سے واقعے کی تحقیقات کی جارہی ہیں۔واضح رہے کہ نوجوانوں میں اسلام قبول کرنے کی شرح میں اضافے کو دیکھتے ہوئے قدیم اور معدوم ہوتے کالاش قبیلے کی روایات کو بچانے کے لیے سماجی کارکنوں کی جانب سے مہم چلائی جارہی ہے۔

ادھر کالاش ویلی بمبوریت کی نو مسلم لڑکی رینہ دختر غلام محمد کالاش نے میڈیا کے سامنے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا ہے اور اُن پر کسی نے بھی قبول اسلام کے سلسلے میں دباؤ نہیں ڈالا ۔ چترال پریس کلب میں اپنے والد اور دیگر رسشتہ داروں کی موجودگی میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسلام قبول کرنے کا فیصلہ اُن کا اپنا ہے اُسے کسی مسلم مرد یا خاتون نے کلمہ پڑھنے پر مجبور نہیں کیا لیکن غلطی سے بعض نے میرے دوبارہ کالاش مذہب کی طرف واپس لوٹنے کی افواہ پھیلائی ۔

جس کے نتیجے میں علاقے کے مسلم اور کالاش برادری میں تنازعہ کھڑا ہوا ۔ تصادم پیدا کرنے سے پہلے مجھ سے میرے مسلمان ہونے کے بارے میں حقیقت جاننے کی کوشش تک نہیں کی گئی۔ اور خود افواہ پھیلا کر انتشار کو ہوا دی ۔ تاہم رب کا شکر ہے ۔ کہ معاملہ اب سنبھل گیا ہے ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ میں بمبوریت کے مسلمان اور کالاش دونوں کمیونٹی سے معافی مانگتی ہوں کہ میری وجہ سے ایک تنازعہ کھڑا ہوا ۔

نو مسلم رینہ نے کہا کہ کلاش لڑکیوں کا مسلمان ہونا کوئی نیا واقعہ نہیں ہے ۔ اور نہ کھبی دونوں کمیونٹیز کے درمیان اس حوالے سے پہلے کبھی تنازعہ ہوا ہے ۔ تاہم یہ واقعہ جس طریقے سے بھی رونما ہوا قابل مذمت ہے ۔ اس واقعے سے کالاش برادری خوفزدہ ہوئی ہے ۔ جو کہ میرے قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں ۔ رینہ نے ایک کالاش گھر کو نقصان پہنچانے کی بھی بھر پور مذمت کی ۔

اور کہا کہ ایسا نہیں کرنا چاہئیے تھا ۔ انہوں نے کہا کہ وہ نویں جماعت کی سٹوڈنٹ ہے اور اسلام سے متاثر ہو کر کلمہ پڑھا ہے ۔ اس موقع پرکالاش قاضی شیر محمد اور بہرام شاہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا ۔کہ کالاش اور مسلمان ان وادیوں میں صدیوں سے رہ رہے ہیں اور اب تک ان کی باہمی اخوت اور بھائی چارہ پوری دنیا کیلئے ایک مثال ہے ۔ اُن کے خاندانوں سے درجنوں مردو خواتین اسلام قبول کر چکے ہیں ۔

اور ہم اُن کی رائے اور فیصلے کا احترام کیا ہے ۔ اس لئے رینہ کا قبول اسلام بھی کوئی انو کھا واقعہ نہیں ۔ ہم ایک ہی گھر کے لوگ ہیں ، لیکن بعض خودد غرض یا نا سمجھ لوگ ہماری مثالی امن و محبت کو پارہ پارہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ تاہم وہ اپنے سازش میں ہر گز کامیاب نہیں ہوں گے ۔ انھوں نے کہا کہ بعض میڈیا چترال میں انتشار پھیلانے کیلئے بے غیر تحقیق کے خبر کو ہو ا دی جس کی وجہ سے چترال سے باہر کے لوگوں میں ایک برا تاثر پھیل گیا جس کی ہم مذمت کرتے ہیں۔

لڑکی کے والد نے اس موقع پر مطالبہ کیا ۔ کہ آیندہ اگر کوئی کالاش مسلمان ہو نا چاہے ۔ تو وہ عدالت کے سامنے مسلمان ہو ۔ تاکہ آیندہ کوئی تنازعہ جنم نہ لے ۔ پریس کانفرنس سے سابق ناظم یوسی بمبوریت عبد المجید قریشی ، کونسلر خلیل الرحمن نے بھی خطاب کیا ۔گذشتہ روز رینہ کے قبول اسلام کا تنازعہ اُس وقت اٹھا ۔ جب انیژ گاؤں کی کالاش خواتین نے قر یبی مدرسے میں جہان رینہ قبول اسلام کے بعد رہائش پذیر تھی ، گئیں اور اُن کو مبینہ طور پر ڈرا دھمکا کر اپنے ساتھ گھر لے ائیں اور انہیں دوبارہ کالاش مذہب قبول کرنے اور لباس پہنے پر مجبور کر دیا ۔

اور یہ بات مشہور کر دی کہ لڑکی ذہنی بیمار تھی ، اس لئے اضطرابی کیفیت اور ذہنی دباؤ کے دوران انہوں نے اسلام قبول کرنے کی بات کی ہے ۔اور یہ بدستور کلاش مذہب میں موجود ہے ۔ یہ خبر جب مسلم کمیونٹی تک پہنچی ، تو نو مسلم لڑکی کی د وبارہ کالاش مذہب میں بزور داخل کرنے کے عمل سے مسلمان کمیونٹی اشتعال میں آیا ۔ اور کالاش کمیونٹی اور مسلمانوں کے درمیان ناخوشگوارواقعہ رونماہوا ۔

اس دوران ایک دوسرے پر سنگ باری اور لاٹھیوں کا استعمال بھی ہوا ۔ جس سے کئی افراد دونوں طرف سے زخمی ہوئے ۔ تاہم مقامی پولیس نے موقع پر پہنچ کر ہوائی فائرنگ کرکے حالات پر کنٹرول حاصل کر لیا ۔ اس واقعے کے بعد ڈپٹی کمشنر چترال اسامہ احمد وڑائچ اور ضلعی نائب ناظم عبد الشکور اور انتظامیہ کے دیگر افیسران نے بمبوریت میں کالاش اور مسلم کمیونٹی کے عمائدین سے ملاقات کی اور حالات کا خود جائزہ لیا ۔

ڈپٹی کمشنر نے عمائدین کے ساتھ نو مسلم لڑکی سے ملاقات کی ۔ جس میں انہوں نے اپنے مسلمان ہونے کا برملا اظہار کیا ۔ اور کہا ۔ کہ انہوں نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا ہے ۔ جمعہ کے روز انہوں نے چترال پریس کلب میں بھی اپنے مسلمان ہونے کا باقاعدہ اعلان کیا ۔ کلاش ویلیز میں جوانسال لڑکیوں کی قبول اسلام میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے اور یہ لڑکیاں مسلمان ہونے کے بعد یا پہلے پسند کی شادی رچاتے ہیں تاہم کمیونٹی کو اس بات پر انتہائی افسوس ہے ۔

کہ کئی لڑکیوں کو خوشحال زندگی کا سبز باغ دکھا کر اُن کو مسلمان کرکے شادی تو کی جاتی ہے لیکن بعد میں اُن کے ساتھ رویہ انتہائی نامناسب ہوتا ہے اور اُن کو طلاق دے کر دوبارہ کالاش ماحول میں کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور کیا جاتا ہے ۔ نو مسلم رینہ کے گاؤں میں ہی تین ایسی خواتین موجود ہیں ۔ جن کے ساتھ عمر بھر نبھانے کے وعدے کرکے تین چار بچوں کی پیدائش کے بعد طلاق دیدی گئی ۔

اب وہ انتہائی مشکل حالات میں زندگی گزار رہے ہیں ۔ مسلمان ہونے والی لڑکیوں میں اکثریت سکول و کالج کے طالب علموں کی ہے ۔ جو نصاب تعلیم پر اسلامی اثرات کے سبب اسلام قبول کرتی ہیں ۔ اس لئے کالاش قبیلے کو لڑکیوں کی اس تبدیلی مذہب کی وجہ سے انتہائی پریشانیوں کا سامنا ہے ۔ دریں اثنا سابق تحصیل ناظم چترال سرتاج احمد خان نے کہا ہے کہ پاکستان کے انتہائی سینئر اور منجھے ہوئے سیاست دان سینیٹر مشاہد حسین سید نے بے غیر تحقیق کے سینٹ میں بات اُٹھائی ۔جوکہ انتہائی نامناسب تھی ۔ انھیں چاہیے تھا کہ چترال کے انتظامیہ سے معلومات لیکر بات کو اگے لے جانا تھا۔ جبکہ بعض غیر ملکی میڈیا نے معمولی بات کو اچھالا جس کو چترال کے دونوں کمیونٹی نے مذمت کی ہے ۔