سپریم کورٹ،فوجی عدالتوں سے سزاؤں کیخلاف5 اپیلوں پر فیصلہ محفوظ

4ملزمان کی سزا پر عملدرآمد روکنے کا حکم ،وفاق کو نوٹسز جاری ، سماعت پیر تک ملتوی، دیگر درخواستوں کی سماعت آج ہو گی

منگل 14 جون 2016 10:48

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔14جون۔2016ء ) سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں سے سزاؤں کیخلاف دائر 17اپیلوں میں سے 5 اپیلوں پر وکلاء کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا اور 4ملزمان کی سزا پر عملدرآمد روکنے کا حکم دے کر وفاق کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے ان ملزمان کی اپیلوں کی سماعت پیر تک ملتوی کرتے ہوئے دیگر درخواستوں کی سماعت آج ہو گی جبکہ ملزمان کے وکلاء کو ٹرائل کا ریکارڈ دکھانے کا حکم بھی دیدیاہے ۔

پیر کے روزفوجی عدالتوں سے سزا کیخلاف دائر اپیلوں کی سماعت چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے کی ۔ عدالتی کارروائی شروع ہوئی تو ملزم حیدر اور قاری ظاہر گل کی جانب سے عاصمہ جہانگیر ایڈووکیٹ پیش ہوئی اور دلائل دیتے ہوئے موقف اختیا ر کیا کہ حیدر علی کو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے 21ستمبر 2007کو گرفتار کیا اور اسوقت وہ کمسن تھا ۔

(جاری ہے)

اپریل 2015تک اس کا کوئی علم نہیں تھا کہا ہے اخبار کے ذریعے پتہ چلا کہ فوجی عدالت سے سزائے موت سنا دی گئی ہے ،فوجی عدالت نے حیدر علی اورقاری ظاہر گل کو ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونے پر سزائے موت سنائی ،فوجی عدالتوں نے دونوں ملزمان کوشفاف ٹرائل کا حق نہیں دیا ،ملزمان کے خلاف فوجی عدالت کی کاروائی میں بدنیتی ہے ، اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل عتیق شاہ نے عدالت کو بتایا کہ یہ اعتراضات ہائی کورٹ میں بھی اٹھائے گئے تھے، 1988کی تاریخ پیدائش حیدر علی کی جس کے تحت وہ کمسن نہیں ، اس پر چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دیئے کہ ملزم حیدر علی نے اپنے بیان میں ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا ہے اور ان سے ہتھیاراور گولیاں بھی برآمد ہوئے ہیں،اس پر عاصمہ جہانگیر کا کہنا تھا کہ میرے موکل قاری ظاہر گل کو جلوزائی میں آئی ڈی پیز کے کیمپ سے اٹھا یا گیا 2009میں غائب ہوا 2015میں اخبار کے ذریعے معلوم ہوا کے اس کو سزائے موت سنا دی گئی جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ملزم سکیورٹی فورسز پر حملے میں ملوث تھا ریکارڈ پر تما م چیزیں موجود ہیں ، اس پر عاصمہ جہانگیر کا کہنا تھا کہ ملزمان کے وکلا کو ریکارڈ تک رسائی تودی گئی لیکن نوٹس نہ لینے دئے گئے ، عدالت نے فوجی عدالت سے سزائے موت پانے والے ملزم حیدر علی کی اپیل پر فیصلہ محفوظ کر تے ہوئے وکیل عاصمہ جہانگیر کو اپنے دیگر موکلان کے ٹرائل ریکارڈ کا جائزہ لینے کی اجازت دیدی ۔

وقفہ کہ بعد مقدمہ کی سماعت دوبارہ شرع ہوئی تو آرمی پبلک حملہ کیس کی مبینہ طور پر ملزم عتیق الرحمان کی اپیل پر وکیل لطیف آفریدی نے دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ عتیق الرحمان واہ فیکٹر ی کا ملازم ہے اور اسے 6دسمبر 2014کوحراست میں لیا گیا ، جبکہ الزام جو لگایا گیا وہ آرمی پبلک سکول کے حملے میں ملوث ہونے کا کا ہے جبکہ اے پی ایس پر حملہ عتیق الرحمان کی گرفتاری کے دس روز بعد ہوا ، عتیق الرحمان کو نوشہرہ سے گرفتار کیا گیا اور اعترافی بیان چارسدہ میں ریکارڈ کرایا گیا ،قانون کے مطابق ملزم کو نوشہرہ کے مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنا چاہیے تھا ،اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ملزم نے جرم قبول کیا اور کہا کہ آئندہ بھی کروں گا ۔

ملزم تاج محمد عر ف رضوان کی جانب سے دلائل دیتے ہوئے لطیف آفریدی نے موقف اختیا کیا کہ میر ے موکل کو فروری 2015میں گرفتار کیا گیا ، آرمی پبلک سکول کا وقوعہ جب ہوا تو وہ خیبر پختونخوا ٹیچنگ ہسپتال میں اہلیہ کی زچگی کے سلسلے میں موجود تھا ،تاج محمد کو گرفتار پشاور سے کیا گیا جبکہ اعترافی بیان سوات میں ریکارڈ کرایا گیا اور وکیل اور جج بھی فوجی تھے ، کیس کے قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے ،اس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ آرمی ایکٹ کے بنائے گئے قانون کے مطابق فوجی عدالت کا پریزائیڈنگ آفسراور استغاثہ فوجی ہو گا اور مقدمات کو سننے کا طریقہ کار بھی آرمی ایکٹ کے مطابق ہو گا ، سپریم کورٹ میں فوج عدالتوں کے فیصلے کو چیلنج کیا گیا ہے ، آرمی ایکٹ کو چیلنج نہیں کیا گیا ،جبکہ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دیئے کہ یہ اعتراض اٹھایا جا سکتا ہے کہ ایف آئی آر درج نہیں ہو ئی ،فوجی عدالتوں میں مقدمات کے ٹرائل کی نوعیت مختلف ہوتی ،اگر سرحد پر دہشت گردوں اور فوجی اہلکاروں کے درمیان تصادم ہو اور چند دہشت گردوں کو گرفتار کر لیا جائے تو اس کا گواہ فوجی ہی ہوگا کوئی اور سول شخص نہیں ہو سکتا،اس پر لطیف آفریدی ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ اسطرح کے ٹرائل کو شفاف اور منصفانہ نہیں کہا جا سکتا ،اس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ ثبوتوں اور فیصلے میں تضاد ہو تو پھر کہا جا سکتا ہے فیصلہ منصفانہ نہیں ہو ا،ثبوتوں کی روشنی میں دیئے گئے فیصلے پر اعتراضات درست نہیں ۔

وکلاء کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت عظمیٰ نے ملزم حیدر علی ، عتیق الرحمان، تاج محمد، قاری ظاہر گل اور سعید الزمان کی اپیلوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا جبکہ جمیل الرحمان ،اسلم خان، عجب گل، اورناصرخان کی اپیلوں پر وفاق کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے ان اپیلوں پر سماعت پیر تک ملتوی کر دی جبکہ دیگر سزاؤں کیخلاف درخواستوں پرسماعت آج منگل کو تک ملتوی کر دی ۔

متعلقہ عنوان :