سعودی عرب،یمن ،عراق،سمیت دیگر ممالک میں قید پاکستانیوں کے مقدمات کی تفصیلات دفتر خارجہ حکام سے طلب کر لی گئی ہیں،حافظ احسان احمد کھوکھر

مقدمات لڑنے اور انکی جلد رہائی کے لیے ہنگامی اقدامات اٹھائے جائیں گے پاکستانی جیلوں کی بھی خستہ حالی ہے ملک بھر میں جیل حکام کو طلب کرتے ہوئے ان قیدیوں سے متعلق ریکارڈ مانگا ہے جن کی سزائیں معمولی جرمانوں کے باعث ہیں 10ہزار روپے جرمانہ تک جرمانہ ادا کرکے انکی رہائی عید سے قبل دلوائیں گے ، جیل حکام سے قیدیوں سے متعلق کمپیوٹرائزڈ ریکارڈ بنوانے کے لیے بھی اقدامات کیے جارہے ہیں وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی سے آج تجاویز طلب کی گئی ہیں،سینئر لا ایڈوائزر وفاقی محتسب کا خصوصی انٹرویو

بدھ 8 جون 2016 10:14

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔8جون۔2016ء)وفاقی محتسب کے سینئر لا ایڈوائزر و کمشنر اوورسیز شکایات حافظ احسان احمد کھوکھر نے کہا ہے کہ سعودی عرب،یمن ،عراق،سمیت دیگر ممالک میں قید پاکستانیوں کے مقدمات کی تفصیلات دفتر خارجہ حکام سے طلب کر لی گئی ہیں،جن کے مقدمات لڑنے اور انکی جلد رہائی کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے جائیں گے۔

پاکستانی جیلوں کی بھی خستہ حالی ہے ملک بھر میں جیل حکام کو طلب کرتے ہوئے ان قیدیوں سے متعلق ریکارڈ مانگا ہے جن کی سزائیں معمولی جرمانوں کے باعث ہیں ،10ہزار روپے جرمانہ تک جرمانہ ادا کرکے انکی رہائی عید سے قبل دلوائیں گے،علاوہ ازیں جیل حکام سے قیدیوں سے متعلق کمپیوٹرائزڈ ریکارڈ بنوانے کے لیے بھی اقدامات کیے جارہے ہیں اس سلسلہ میں وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی سے تجاویز طلب کی گئی ہیں۔

(جاری ہے)

ان خیالا ت کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز خبر رساں ادارے کو ایک خصوصی انٹرویو کے دوران کیا ۔حافظ احسان احمد کھوکھر نے کہا کہ رواں سال صرف چھ ماہ میں 40ہزار شکایات جو کہ مختلف سرکاری محکموں ،سوئی گیس،وزارت پانی و بجلی ،ایجوکیشن،ہیلتھ،سی ڈی اے سمیت دیگر تھیں انہیں بروقت نمٹا کر فیصلے صادر کرکے شہریوں کو فوری اور سستا انصاف فراہم کر دیا گیا ہے ،اور ہماری خواہش ہے کہ انصاف کے تقاضے جتنے جلدپورے کیے جائیں گے اتنا ہی عوام کا اعتماد اپنے اداروں پر بڑھے گا۔

انہوں نے بتایا کہ نادرا کے خلاف کل 21ہزار شکایات موصول تھیں جو کہ زیادہ ترنائیکوپ،ڈوپلیکٹ ،نام کی غلطی سمیت دیگر تھیں وہ تمام تر درخواستیں بروقت نمٹا کر ایک کمیٹی بھی بنائی گئی ہے جو کہ آئیندہ ایسی غلطیوں کو روکتے ہوئے کرپٹ عملہ کے خلاف تادیبی کارروائی کرے۔کمیٹی جنرل ریٹائرڈ آصف یاسین ملک کی سربراہی میں بنائی گئی ہے جس کے 10ممبر ہونگے ،کمیٹی اس بات کا تعین کرے گی کہ عام شہریوں کو کن کرپٹ مافیا کی غلطیوں کی سزا دی جارہی ہے جو اس بات کا تعین کرکے حکومت سے ان افراد کے خلاف قانونی کارروائی کی سفارش کرے گی۔

حافظ احسان احمد کھوکھر نے سوال کے جواب بتایا کہ عام شہریوں کو معلوم تک نہیں ہے کہ وفاقی محتسب کیا ادارہ ہے اس حوالے سے میڈیا کو اہم کردار ادا کرنا چاہیے کہ وہ شعور بیدار کرے تاکہ وہ سمجھ سکیں کہ وفاقی محتسب کا ادارہ ان تمام سرکاری اداروں کے خلاف شکایات سن کر جلد از جلد فیصلہ دے سکتا ہے ۔انہوں نے مزید بتایاکہ گزشتہ روز عراق سے ان گیارہ افراد کو ریسکیو کرکے فوری طور پر وطن واپس لایا گیا تھا جن کوکئی ماہ تک وہاں تنخواہ تو دور کی بات ہے انکے پاسپورٹ بھی ضبط کرلیے گئے تھے۔

ان پاکستانیوں کا وہاں کوئی پرسان حال نہیں تھا اب مزید اطلاعا ت ہیں کہ متعد د پاکستانی اور بھی وہاں موجود ہیں اس حوالے سے دفترخارجہ کے حکام کو طلب کیا گیا ہے تاکہ ان سے رائے لیکر انہیں مزید اقدامات اٹھانے کے لیے احکامات دیے جائیں گے۔ایک اور سوال کے جواب میں حافظ احسان احمد کھوکھر نے بتایاکہ ملک بھر میں 90اضلاع میں وفاقی محتسب کے دفاتر کام کر رہے ہیں جہاں سستا اور فوری انصاف دیا جارہا ہے ہماری کوشش ہے کہ اس سے بھی کم وقت میں شکایات کو نمٹایا جا سکے ،علاوہ ازیں پنشن سے متعلق درخواستیں نمٹا دی گئی ہیں اب ہر ماہ ایک حلفیہ بیان پر وزارتیں اور ادارے باقاعدگی سے اگاہ کرتے ہیں کہ انکے پاس کوئی بھی پنشن کیس نہیں ہے اور وفاقی محتسب کی ذاتی خواہش ہے کہ بجائے کہ ادارے ہمیں اگاہ کریں ہم کوئی ایسا نظام وٓضع کریں جو ون کلک پر تمام تر معلومات مل جائیں اس حوالے سے وزارت آئی ٹی کو آج طلب کرلیا گیا ہے جو آسان ٹیکنالوجی دے تاکہ جیلوں سیمت نادرا،و دیگر سرکاری اداروں کی مانیٹرنگ کی جائے۔

حافظ احسان احمد کھوکھر نے سوال کے جواب میں بتایاکہ جیلوں میں آٹومیشن نظام ہو جہاں سے پتہ چل سکے کہ کس قیدی کو کس جرم کے تحت کب سزا ہوئی اورکب ختم ہوگی ،مینوئل نظام میں تو لا وارث قیدیوں کو پتہ تک نہیں کہ وہ کس جرم کی سزا بھگت رہے ہیں۔جیل حکام کو 14جون کو طلب کیا گیا ہے اور ان سے جیلوں میں قیدی خواتین اور بچوں کی تعداد کا بھی پوچھا جائے گا اور جہاں تک کوشش ہو گی کہ معمولی جرمانہ پر سزا کاٹنے والوں کے جرمانے ادا کرکے انکی رہائی کے لیے اقدامات کیے جائیں اورلاوارث قیدیوں کو قانونی معاونت کے لیے لا آفیسر زبھی دینے کے لیے سوچ بچار کی جارہی ہے ۔