روشن پاکستان کیلئے سیاسی جماعتوں کو میثاق معیشت کرنا ہو گا، اسحاق ڈار

پاکستانیوں کا پیسہ واپس لانے کیلئے رواں ماہ سوئس حکام سے مذاکرات ہوں گے،دہشت گردی کیخلاف جنگ میں118 ارب کا نقصان ہو چکا ،ایشین ٹائیگر بننے کے لئے زرعی ترقی ناگزیر ہے، سرمایہ باہر لے جانے اور ٹیکس چْرانے والوں کا پیچھا کریں گے ،صدر ،وزیر اعظم ،وزرائے اعلی اور گورنرز کی تنخواہوں پر رعایت برقرار ہے،کسانوں بڑا پیکج دیا ،صوبائی حکومتیں کسانوں کو مزید ریلیف فراہم کرسکتی ہیں، مرغی کا گوشت کی قیمت فی کلو 200 سے زیادہ نہیں ہوگی ،یقین دلاتا ہوں کہ رمضان المبارک میں اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کیا جائیگا،وزیر خزانہ کا پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس سے خطاب

اتوار 5 جون 2016 11:09

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔5جون۔2016ء)وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ سوئس بینکوں میں پڑے پاکستانیوں کے پیسے واپس لانے کیلئے رواں ماہ سوئس حکام سے مذاکرات ہوں گے ، نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اب تک 118 ارب ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے۔ایشین ٹائیگر بننے کے لئے زرعی ترقی ناگزیر ہے، سرمایہ باہر لے جانے اور ٹیکس چْرانے والوں کا پیچھا کریں گے ،روشن پاکستان کیلئے سیاسی جماعتوں کو میثاق معیشت کرنا ہوگا،صدر ،وزیر اعظم ،وزرائے اعلی اور گورنرز کی تنخواہوں پر رعایت برقرار ہے،وفاقی حکومت نے کسانوں بڑا پیکج دیا ہے صوبائی حکومتیں مزید ریلیف فراہم کرسکتی ہیں،یقین دلاتا ہوں کہ رمضان المبارک میں اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کیا جائیگا۔

ہفتہ کے روز اسلام آباد میں پوسٹ بجٹ پریفنگ کانفرنس کے دوران وزیر خزانہ نے کہا کہ مالی سال 17-2016 کے بجٹ میں حکومت نے ساری توجہ پیداوار کی طرف مرکوز رکھی اور وسائل کو سامنے رکھتے ہوئے بہترین اور متوازن بجٹ پیش کیا۔

(جاری ہے)

حکومت کی مالیاتی پالیسی کی بدولت بیرونی سرمایہ کاری بڑھے گی، ملک میں زراعت کے پیشے سے 70 فیصد آبادی وابستہ ہے، اس کا مجموعی قومی پیداوار میں حصہ 21 فیصد ہے، ہم نے اپنے وسائل کے اندررہتے ہوئے بھرپور کوشش کی کہ اس شعبے کی ترقی ہماری اولین ترجیح ہے، ہم نے کھاد کی قیمتوں میں خاطرخواہ کمی کی ہے، جس سے زراعت کے شعبے سے وابستہ افراد کو ریلیف ملے گا۔

ہم نے ٹیوب ویل کے لئے بجلی کے نرخوں میں ساڑھے 3 روپے فی یونٹ کمی کی ہے۔ زرعی شعبے میں قرضوں کو100 ارب تک بڑھایا گیا ہے۔ صوبائی حکومتیں کسانوں کومزید ریلیف دے سکتی ہیں۔ ہم یقین دلاتے ہیں کہ رمضان میں اشیائے خورد ونوش کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کیا جائے گا جب کہ مرغی کے گوشت کی فی کلوقیمت 200 روپے سے زیادہ نہیں ہوگی۔برآمدات کے حوالے سے وفاقی وزیرنے کہا کہ معاشی طاقت بننے کیلئے برآمدات میں اضافہ ضروری ہے لیکن ہماری برآمدات کا حجم 11 فیصد کم ہوا ہے اس کی وجہ عالمی مارکیٹ میں ان کی قیمتوں میں ہے۔

ہم نے برآمدات کو بڑھانے کے لیے کئی اقدام اٹھائے ہیں، ہم مشینری اور خام مال پر ٹیکس کو کم کیا ہے۔محصولات کی وصولی کے بارے میں اسحاق ڈار نے کہا کہ 2013 میں جی ڈی پی میں ٹیکس کی شرح 12.5 فیصد تھی جو کہ بڑھ کر 15 فیصد ہوگئی ہے اوراسے مزید بڑھانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔دفاعی بجٹ سے متعلق اسحاق ڈارنے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمیں اب تک 118 ارب ڈالر کا نقصان ہوا کیونکہ نائن الیون کے بعد حکمرانوں نے ایک ٹیلی فون پر گھٹنے ٹیک دیئے، اگروہ عالمی طاقتوں سے یقین دہانیاں کراتے تو آج یہ صورت حال پیدا نہ ہوتی لیکن اب آپریشن ضرب عضب کی کامیابیوں سے دہشت گردی کی وجہ سے ہمارے نقصان کم ہوئے ہیں، ہم نے دفاعی بجٹ میں 11 فیصد اضافہ کیا ہے۔

اسلام آباد میں پوسٹ بجٹ پریفنگ کانفرنس کے دوران وزیر خزانہ نے کہا کہ ایشین ٹائیگر بننے کے لئے زرعی ترقی ناگزیر ہے ،انہوں نے سرمایہ باہر لے جانے اور ٹیکس چْرانے والوں کا پیچھا کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ سٹیٹ بینک ،ایس ای سی پی اور ایف بی آر کو فریم ورک تیار کرنے کی ہدایت کی ہے کہ یہ اس حوالے سے اہم سٹیک ہولڈرز ہیں ،سوئس بینکوں میں پڑے پاکستانیوں کے پیسے لانے کیلئے سوئس حکومت سے رواں ماہ کے دوران برلن ملاقات ہوگی مزید برآں پاکستان نے او ای سی ڈی کی ممبر شپ کیلئے اپلائی کر دیا ہے یہ ایک سہ فریقی فورم ہے اور اس کے ذریعے معلومات جلد حاصل ہو سکتی ہیں۔

وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ مالی سال 17-2016 کے بجٹ میں حکومت نے ساری توجہ گروتھ کی طرف مرکوز رکھی ہے اور وسائل کو سامنے رکھتے ہوئے بہترین اور متوازن بجٹ پیش کیا۔ بجٹ میں تمام شعبوں کو فائدہ پہنچایا ہے مگر ترجیہی زرعی شعبہ تھا بجٹ میں کاشتکاروں کی مشکلات کا ازالہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے آپریشن ضرب عضب کے مکمل ہونے کے بعد سرمایہ کاری میں مزید اضافہ ہو گا خیراتی اداروں کے علاوہ رواں سال میں148ارب روپے کے تمام مراعاتی اسٹیچوری ریگولیٹری آرڈر (ایس آر اوز) ختم کردئیے گئے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ عالمی سطح پر قیمتوں میں کمی کے باعث برآمدات میں بھی 11 فیصد کمی ہوئی ہے جسے آئندہ تین سالوں میں 35 ارب ڈالر تک لے جانے کا ہدف ہے۔حکومت کی مالیاتی پالیسی کی بدولت بیرونی سرمایہ کاری بڑھے گی، ملک میں زراعت کے پیشے سے 70 فیصد آبادی وابستہ ہے، اس کا مجموعی قومی پیداوار میں حصہ 21 فیصد ہے، ہم نے اپنے وسائل کے اندررہتے ہوئے بھرپور کوشش کی کہ اس شعبے کی ترقی ہماری اولین ترجیح ہے زرعی شعبے کو ریلیف دینے کے لیے یوریا کھاد کی فی بوری قیمت میں 400 روپے جبکہ ڈی اے پی کھاد کی قیمت میں 300 روپے فی بوری کمی کی گئی ہے جس سے زراعت کے شعبے سے وابستہ افراد کو ریلیف ملے گا۔

ہم نے ٹیوب ویل کے لئے بجلی کے نرخوں میں ساڑھے 3 روپے فی یونٹ کمی کی ہے۔ زرعی شعبے میں قرضوں کو100 ارب تک بڑھایا گیا ہے جبکہ اس سال کے آخر میں زراعت کے لیے مختص رقم 341 ارب بڑھ کر 400 ارب روپے ہوجائے گی۔ صوبائی حکومتیں کسانوں کومزید ریلیف دے سکتی ہیں انہوں نے مزید کہاکہ رمضان میں اشیائے خورد ونوش کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کیا جائے گا جب کہ مرغی کے گوشت کی فی کلوقیمت 200 روپے سے زیادہ نہیں ہوگی۔

برآمدات کے حوالے سے وفاقی وزیرنے کہا کہ معاشی طاقت بننے کیلئے برآمدات میں اضافہ ضروری ہے لیکن ہماری برآمدات کا حجم 11 فیصد کم ہوا ہے اس کی وجہ عالمی مارکیٹ میں ان کی قیمتوں میں ہے۔ ہم نے برآمدات کو بڑھانے کے لیے کئی اقدام اٹھائے ہیں، ہم مشینری اور خام مال پر ٹیکس کو کم کیا ہے۔محصولات کی وصولی کے بارے میں اسحاق ڈار نے کہا کہ 2013 میں جی ڈی پی میں ٹیکس کی شرح 12.5 فیصد تھی جو کہ اب 15 فیصد تک پہنچ گئی ہے اوراسے مزید بڑھانے کی کوششیں کی جارہی ہیں جبکہ ٹیکس ریفنڈز کی واپسی 30اگست تک مکمل کرلی جائے گی خیراتی اداروں کے علاوہ رواں سال میں148ارب روپے کے تمام مراعاتی اسٹیچوری ریگولیٹری آرڈر (ایس آر اوز) ختم کردئیے گئے ہیں گذشتہ دو سالوں میں 226ارب روپے کے ایس آر اوز ختم کیے ہیں۔

دفاعی بجٹ سے متعلق اسحاق ڈارنے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمیں اب تک 118 ارب ڈالر کا نقصان ہوا کیونکہ نائن الیون کے بعد حکمرانوں نے ایک ٹیلی فون پر گھٹنے ٹیک دیئے، اگروہ عالمی طاقتوں سے یقین دہانیاں کراتے تو آج یہ صورت حال پیدا نہ ہوتی لیکن اب آپریشن ضرب عضب کی کامیابیوں سے دہشت گردی کی وجہ سے ہمارے نقصان کم ہوئے ہیں، ہم نے دفاعی بجٹ میں 11 فیصد اضافہ کیاہے سرکاری ملامین کی تنخواہوں کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کے حوالے سے ایک کمیٹی بنائی تھی جو سی پی آئی کی شرح کے مطابق ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کے حوالے سے سفارشات دیتی ہے اس سال مہنگائی کی شرح 3فیصد سے بھی کم تھی انہوں نے ہمیں بہت کم تنخواہ بڑھانے کی سفارش کی تھی مگر کابینہ میں متفقہ فیصلہ کے بعد اسے 10فیصد تک بڑھایا ہے لیونکہ گذشتہ سال کے مقابلہ میں ریونیو وصولی تسلی بخش رہی ہے اس یے ملازمین کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچانے کا فیصلہ کیا گیا انہوں نے کہا کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پینشن سے حکومت کو 57ارب کا اضافی بوجھ برداشت کرنا پڑے گا ۔

اسحاق ڈارنے بتایا کہ 80 ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ ختم کی گئی ہیں،صدر ، وزیراعظم ،وزرائے اعلیٰ اور گورنرز کی تنخواہوں پر رعایت اس لئے برقرار رکھی کیونکہ اس سے خاطر خواہ بچت نہیں ہوتی۔