سینٹ میں ڈرون حملوں پر شدید احتجاج،امریکی سفیر کو ملک بدر کرنے،ڈرون مار گرانے کا مطالبہ

ڈرون حملوں سے افغان امن عمل کو نقصان پہنچا ، پاکستان میں افغان طالبان کے ٹھکانے نہیں،پاکستان کی خارجہ پالیسی پڑوسی ممالک میں امن اور سلامتی پر مبنی ہے،سرتاج عزیز کہا جاتا تھا کہ طالبان اور ملا منصور ہمارے کنٹرول میں نہیں ہیں مگر ان کو پاکستانی پاسپورٹ اور شناختی کارڈ بھی جاری کیا گیا تھا،یہ واضح تضاد ہے،فرحت اللہ بابر امریکہ جہاں جاتا ہے وہاں دہشت پھیلاتا ہے،نہال ہاشمی، تضادات کے خاتمے کیلئے وزیر خارجہ کی تعینات ضروری ہے،اعظم سواتی ودیگر کا سینٹ میں تحریک التواء پر اظہار خیال

جمعہ 3 جون 2016 09:44

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔3جون۔2016ء)سینٹ میں امریکہ کی جانب سے پاکستان میں ڈرون حملوں پر شدید احتجاج کرتے ہوئے اراکین نے معاملے کو عالمی سطح پر اٹھانے،امریکی سفیر کو ملک بدر کرنے اور ڈرون طیاروں کو مار گرانے کا مطالبہ کیا ہے۔ مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کہا کہ ڈرون حملوں سے افغان امن عمل کو نقصان پہنچا ہے۔ پاکستان میں افغانستان کے طالبان کے کوئی ٹھکانے نہیں ہیں۔

پاکستان کی خارجہ پالیسی پڑوسی ممالک میں امن اور سلامتی پر مبنی ہے۔ افغانستان میں امن کا قیام پاکستان کی اولین ترجیح ہے۔ ایوان بالا میں تحریک التوا پر بات کرتے ہوئے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ وزیر داخلہ نے اس بات کا اقرار کیا ہے کہ ملا منصور کو پاکستانی شناختی کارڈ جاری کیا گیا تھا اور انہوں نے یہ بھی خبردار کیا کہ اور بھی بہت سے لوگوں کو جعلی شناختی کارڈ جاری ہوتے ہیں ۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ وزیر داخلہ نے نادرا پر اور گزشتہ حکومت پر الزامات عائد کئے اور کہا کہ طالبان کے ترجمان کے مطابق ملا منصور مختلف جگہوں پر سفر کرتا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال سے ایک تضاد سامنے آیا ہے ۔ یہ کہا جاتا تھا کہ طالبان اور ملا منصور ہمارے کنٹرول میں نہیں ہیں مگر ان کو پاکستانی پاسپورٹ اور شناختی کارڈ بھی جاری کیا گیا تھا ۔

انہوں نے کہا کہ اب ہماری حکومت کہتی ہے کہ ملا منصور امن کا داعی تھا اور اس کو ڈرون حملے کا نشانہ بنا کر امن عمل کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکی ڈرون حملے کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت20کروڑ عوام کے شناختی کارڈ اور سرکاری دستاویزات کو دوبارہ چیک کر رہی ہے ہو سکتا ہے کہ اس مسئلے میں براہ راست سٹیٹ ملوث ہے۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ دور حکومت میں 27ہزار شناختی کارڈ کو مشکوک سمجھ کر حساس اداروں کو بھجوائے گئے ۔ جس میں 90فیصد حساس اداروں نے درست قرار دے دیئے تھے اس کی تحقیقات ہونی چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ وزارت داخلہ نے حالیہ ڈرون حملے کے بعد ہماری بین الاقوامی تنہائی میں اضافے کی بنیادی وجہ سکیورٹی اور خارجہ امور کے درمیان خارجہ پالیسی پر تضادات ہیں اس کی وضاحت کی جائے۔

سینیٹر نہال ہاشمی نے کہا کہ یہ واقعہ ہماری علاقائی خودمختاری اور سلامتی کے منافی ہے آج امریکہ کی مخالفت کرنے والے افراد کو امریکہ ٹارگٹ کر رہا ہے۔ اسلامی دنیا اور خصوصاً ایشیا پر امریکہ کی نظر ہے اور اس خطے کو غیر مستحکم کرنے میں امریکہ کا کردار ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکی سینٹ یا کانگریس جس خطے کو چاہے دہشتگرد قرار دیتے ہیں یا ان پر پابندیاں عائد کر دیتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کوامریکی گندم اور ایف 16سے کوئی ترقی نہیں ملی ہے ۔ امریکہ جس خطے میں جاتا ہے وہاں پر امن کی بجائے دہشت پھیلاتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں امریکہ سے مدد مانگنے کی بجائے اپنی خودمختاری کا اظہار کرنا چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ ہم امریکی ڈرون حملے کی شدید مذمت کرتے ہیں اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ امریکہ کے خلاف مقدمات درج کئے جائیں۔

سینیٹر اعظم سواتی نے کہا کہ ملک کی خارجہ پالیسی کی سمت مقرر کرنے اور تضادات کے خاتمے کے لئے وزیر خارجہ کی تعیناتی بے حد ضروری ہے، پاکستان کو عالمی دنیا پر واضح کرنا ہو گا کہ پاکستان کا افغان طالبان سے کوئی تعلق نہیں ہے اور پاکستان افغانستان میں امن کا خواہاں ہے۔ سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ امریکی ڈرون حملہ ایک افسوسناک اقدام ہے اور یہ پاکستان کی سلامتی اور خودمختاری کی خلاف ورزی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے دہشتگردی کی جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو اس معاملے کا سختی سے نوٹس لینا چاہیئے اور تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے اختلافات بالائے طاق رکھ کر اپنی خارجہ پالیسی پر بحث کرنی چاہیئے تاکہ اس کی سمت کا تعین کیا جا سکے۔ سینیٹر شاہد حسین سید نے کہا کہ خطے میں امریکہ اور بھارت کے مابین دوستی بڑھ رہی ہے۔

پاکستان میں ڈرون حملے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملا اختر منصور کی ہلاکت سے افغان امن عمل پر کیا اثرات پڑے ہیں اس حملے سے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات پر کیا اثرات پڑے ہیں اور ڈرون پر پاکستان کی پالیسی کیا ہے اس کے جوابات بے حد ضروری ہیں۔ سینیٹر جنرل (ر) عبدالقیوم نے کہا کہ موجودہ ڈرون حملے سے پاکستان کی بارڈر منیجمنٹ پر سوالات اٹھے ہیں ۔

پاکستان میں افغانستان کے شہریوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور نادرہ کے شناختی کارڈ کے مسائل سامنے آئے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بلوچستان میں افغان طالبان کا شوریٰ موجود ہے اور موجودہ طالبان کمانڈر کا تعلق بھی کچلاک کے ایک مدرسے سے ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈرون حملوں نے پاکستان کی خودمختاری کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ برسوں کے دوران 423ڈرون حملوں میں 4ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بنے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کوئی بین الاقوامی قانون مشتبہ افراد کو قتل کرنے کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ امریکہ امن میں مخلص نہیں ہے ڈرون حملوں میں207بچے بھی ہلاک ہوئے ہیں۔ انہوں نے حکومت کو ڈرون حملوں پر سخت اقدامات کرنے چاہیئے اور واضح پالیسی اختیار کرنی چاہیئے۔

سینیٹر جان کینٹ ولیم نے کہا کہ ڈرون حملوں کا معاملہ ایک پیچیدہ معاملہ ہے جو کئی عشروں تک پھیلا ہوا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ڈرون حملے سے پاکستان کی خودمختاری پر ضرب پڑی ہے جس کی ہم مذمت کرتے ہیں۔ سینیٹر حافظ حمد اللہ نے کہا کہ ملا منصور کی شہادت پر ہم شدید احتجاج کرتے ہیں ۔ جمعیت علمائے اسلام امریکہ کی جانب سے پاکستان میں ڈرون حملے کی شدید مذمت کرتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ امریکی ڈرون حملے کے خلاف چائے کی پیالی پر ڈرون حملے کی مذمت کافی نہیں ہے۔ حکومت امریکی سفیر کو ملک بدر کرے اور امریکی ڈرون کو گرایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ملا اختر منصور کی شہادت سے پاکستان پر کیا اثرات پڑتے ہیں اس پر غور کرنا چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے حکمران امریکہ کے خلاف نہیں بولتے ہیں کیونکہ ان کو پتہ ہے کہ اقتدار امریکہ کی مرضی سے آتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملک کی سالمیت آزادی اور خودمختاری پر حملہ ہوا ہے مگر ایوان مکمل طور پر خالی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب بھی امن معاہدے کی سمت بڑھتے ہیں کوئی ڈرون حملہ کر دیا جاتا ہے ۔ گزشتہ سال مری میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کئے گئے تھے اس وقت کابل سے یہ خبر آئی کہ ملا عمر اس دنیا میں نہیں ہے جس کے بعد امن مذاکرات تعطل کا شکار ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ مذاکرات کو بار بار سبوتاژ کرنے کا مسئلہ ہماری وزارت خارجہ نے کبھی امریکہ کے ساتھ اٹھایا ہے؟ یقیناً نہیں کیونکہ ہم ڈالرز کی خاطر جنگ کا حصہ بنے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آج تک پارلیمان میں خارجہ پالیسی پر کوئی بات نہیں ہوئی ہے ۔ ہمیں پتہ نہیں کہ ہماری خارجہ پالیسی کہاں پر بنتی ہے ۔۔انہوں نے کہا کہ جس گاڑی پر ڈرون حملہ ہوتا ہے اس گاری کے پرخچے اڑ جاتے ہیں مگر اس حملے پر شکوک و شبہات ہیں ۔ گاڑی جل گئی مگر گاڑی میں موجود افراد کے شناختی کارڈ محفوظ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس ڈرون حملے کے بعد ہمارے اور افغانستان کے تعلقات کیسے ہیں ایران اور امریکہ ہمارے دوست ہیں یا دشمن یہ واضح کیا جائے۔

اس موقع پر چیئر مین سینٹ نے کہا کہ پورے ایوان کو امریکی صدر کے بیان پر تشویش ہے جس میں انہوں نے یہ کہا کہ ہمیں جہاں بھی خطرہ نظر آئے وہاں ڈرون حملہ کریں گے۔ تحریک التوا پر بحث کو سمیٹتے ہوئے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کہا کہ ڈرون حملے پر وزارت خارجہ نے تفصیلی بیان جاری کیا تھا اور اس ڈرون حملے پر احتجاج کیا گیا تھا دوسرے دن امریکی سفیر کو طلب کر کے اس ڈرون حملے پر شدید احتجاج کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ملا اختر منصور کو 2003میں پاکستانی شناختی کارڈ جاری کیا گیا تھا اور 2006میں اس کا پاسپورٹ بنایا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو امریکی ڈرون حملوں پر شدید تشویش ہے اور موجودہ حکومت نے ڈرون حملوں کے خلاف عالمی سطح پر آواز اٹھائی ہے۔ جس کے بعد پاکستان میں ڈرون حملوں کا سلسلہ کافی حد تک رک گیا ہے اور حالیہ سال میں صرف3ڈرون حملے ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے ڈرون حملوں پر خاموشی اختیار نہیں کی ہے بلکہ اس مسئلے پر عالمی برادری کو اپنی تشویش سے آگاہ کیا ہے۔ مشیر خزانہ سرتاج عزیز نے کہا کہ پاکستان میں افغان شوریٰ کا کوئی دفتر نہیں ہے ملا اختر منصور کے ایران سے آمد کے معاملے کی بھی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افغان امن عمل کو حالیہ ڈرون حملے سے نقصان پہنچا ہے اور یہ دوسرا موقع ہے کہ امن عمل کا موقع پر ڈرون حملہ کر کے امن عمل کو نقصان پہنچایا گیا ہے اور ہم نے یہ مسئلہ امریکہ، افغانستان، چین اور روس سمیت کئی ممالک کے ساتھ اٹھایا ہے۔

انہوں نے کہا کہ افغان مسئلے کا واحد حل مذاکرات ہیں مگر یہ ڈرون حملے امن عمل پر منفی اثر ڈالتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان افغانستان میں امن کو سب سے زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی پڑوسی ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات اور علاقائی خودمختاری کو اولین ترجیح دیتی ہے پاکستان افغانستان میں امن کے قیام کے لئے اپنی بھرپور کوششیں جاری رکھے گا۔ چیئر مین سینٹ میاں رضا ربانی نے کہا کہ امریکی صدر کی جانب سے پوری دنیا میں ڈرون حملوں کی بات نے ایوان میں تشویش پائی جاتی ہے اور سینٹ کی خصوصی کمیٹی کو معاملہ بھجواتے ہوئے ہدایت کی کہ اس کی پورٹ ایوان میں پیش کی جائے۔