پاکستان میں فائیو جی ٹیکنالوجیز کا آغاز 2020میں ہوگا ‘تھری جی اور فورجی سے شہری اوردیہی علاقوں میں براڈبینڈ کی شرح نمو نا قابل یقین حد تک بڑھ گئی،18 ماہ کی قلیل مدت میں صارفین کی تعداد تیس ملین سے تجاوز کر گئی،وزیر مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی و ٹیلی کام انوشتہ رحمان کا پاک چآئنہ ایف سی پروجیکٹ کے سنگ بنیاد کی تقریب سے خطاب

جمعہ 20 مئی 2016 09:35

گلگت (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔20 مئی۔2016ء) وزیر مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی کام انوشتہ رحمان نے کہا ہے کہ پاکستان میں فائیو جی ٹیکنالوجیز کا آغاز 2020میں ہوگا ‘تھری جی اور فورجی سے شہری اوردیہی علاقوں میں براڈبینڈ کی شرح نمو نا قابل یقین حد تک بڑھ گئی،18 ماہ کی قلیل مدت میں صارفین کی تعداد تیس ملین سے تجاوز کر گئی اور قومی خزانے کو 1.2ارب ڈالر کی آمدن ہوئی‘ ٹیلی کام کا ریونیو450 بلین تک پہنچ چکا ہے بین الاقوامی ادارے اس بات پر متفق ہیں کہ براڈ بینڈ کی شرح نمو میں ہر 10فیصد اضافہ جی ڈی پی کی شرح میں1.38فیصد تک اضافے کا سبب بنتا ہے ۔

وہ گلگت میں پاک چآئنہ ایف سی پروجیکٹ کے سنگ بنیاد کی تقریب سے خطاب کر رہی تھیں ۔ انہوں نے کہا کہ آجکل کے ترقیاتی دور میں جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کیے بغیر دور حاضر کے ہم عصر ملکوں سے ہم پلہ رہنا نا ممکن ہے اور اس جدید ٹیکنالوجی کا حصول بلواسطہ یا بلاواسطہ آئی سی ٹی سے وابستہ ہے‘آئی سی ٹی کی اسی تیز رفتار ترقی نے دنیا کو سمیٹ کر ایک گلوبل ویلج کی شکل دے دی ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت آئی سی ٹیز سے متعلقہ دیئے گئے منشور کو عملی جامہ پہنانے کیلئے مکمل طور پر پُر عزم ہے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ اس دورمیں معاشی ترقی کے اہداف کے حصول کیلئے انفارمیشن کمیونیکیشن ٹیکنالوجیز کا کردار کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ چناچہ دیرپا معاشی ترقی کو یقینی بنانے کیلئے ہم "ڈیجیٹل پاکستان"کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں تاکہ ملک سے "ڈیجیٹل اور براڈبینڈ تفریق"کا خاتمہ کیا جاسکے اور ٹیکنالوجی کے شعبہ میں اس فقیدالمثال ترقی کے ثمرات پورے پاکستان کے لوگوں کو یکساں طور پر مہیا کیے جا سکیں۔

انہوں نے کہا کہ جب ہماری حکومت بنی تو آئی ٹی کی مخدوش حالت تھی جس میں اہم آسامیوں پر موزوں اشخاص کی تعیناتی سے لیکر "نئی پالیسی سازی"جیسے اہم امور شامل تھے‘ اہم آسامیوں پر شفافیت کے ساتھ انتہائی قابل افراد کی تقرری کی بلکہ ورثے میں ملنے والے دیگر مسائل کا بھی حل تلاش کیا۔انہوں نے کہا کہ آج ہم جس مقصد کیلئے یہاں اکٹھے ہوئے ہیں اسی کو دیکھ لیجئے جون 2012ءء سے کراس بارڈر لنکیج پر پابندیاں عائد تھیں‘پالیسی ڈائریکٹیو تعطل کا شکار تھا لیکن ہم نے فوری طور پر اس صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے اس پالیسی ڈائریکٹیو کو از سر نوبحال کیا۔

اسی کا نتیجہ ہے کہ آج ہم چائنہ کے ساتھ ایک اہم رابطے کا افتتاح کرنے جارہے ہیں۔جس کے نتیجے میں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کی ٹریفک کے حوالے سے خطے میں Transitional Hubکے طور پر اُبھر کر سامنے آئے گا۔اسی طرح ایک دوسرا اہم پالیسی فیصلہ ہم نے اُس وقت کیا جب اگست 2012ءء کو نافذ کیے گئے "انٹرنیشنل کلیرنگ ہاؤسICH "کے مضرات ہمارے سامنے آئے ۔ جہاں ایک طرف گرے ٹریفک آسمان کو چھو رہی تھی تو دوسری طرف دوسرے ممالک میں محنت مزدوری کی غرض سے گئے ہوئے ہمارے بہن بھائیوں کو مہنگے ترین "کال ریٹس"ادا کر کے فون کالز کرنا پڑتی تھیں لیکن ہم نے ایک طویل قانونی جدوجہد کے بعد وزیر اعظم محمد نواز شریف کی ہدایت پر اسے ختم کیا اور قانونی ٹریفک کو جو 400ملین منٹس تک گر چکی تھی اُسے دوبارہ 1.5بلین منٹ ماہانہ کی شرح پر واپس لانے میں کامیاب ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ براڈ بینڈ کی شرح نمو جو 2014ءء میں محض تین فیصد سے بھی کم تھی آج 18فیصد سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ انڈیا اور بنگلہ دیش میں یہ شرح بلترتیب 15اور 13فیصد ہے۔ہم نے نئی ٹیلی کام پالیسی 2015کی صورت میں ایک ایسا جامع اور مربوط مسودہ متعارف کروایا ہے جس میں ٹیلی کام کے شعبہ سے متعلقہ تمام تصفیہ طلب امور اور چیلنجز کا حل تجویز کیا گیا ہے جس میں OTTs، سپیکٹرم ٹریڈنگ اور انفراسٹرکچر شیئرنگ جیسے امور کا احاطہ کیا گیا ہے۔

پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کو فروغ دینے کیلئے اور ملک کے طول و عرض میں آپٹک فائبر ، رورل ٹیلی فونی اور 3Gجیسی سہولیات کی فراہمی کیلئے حکومت یونیورسل سروسز فنڈ کے ذریعے تقریباً 35بلین روپے کی سبسڈی فراہم کر رہی ہے تاکہ ملک کے پسماندہ اور دور افتادہ علاقوں کے مکینوں کو جدید ٹیکنالوجی کی سہولیات مہیا کی جا سکیں ان میں بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے پسماندہ دیہات سر فہرست ہیں۔

ہم سبی،قلات، مستونگ ، لورالائی ،ژوب، چترال او ر شانگلہ کے پسماندہ دیہی علاقوں تک جدید سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنا رہے ہیں۔ ان علاقوں میں 14 ارب روپے سے زائد لاگت کے منصوبوں پر کام ہو رہا ہے۔ ان علاقوں میں فکسڈ لائن فون جیسی سہولت بھی میسر نہیں تھی اور نا ہی ان علاقوں میں موبائل کمپنیوں کا بزنس کیس بنتا ہے ۔ ان علاقوں میں ابتک USFکے ذریعے 6000کلو میٹر ز پر مشتمل 3000موضعات میں آئی سی ٹی سروسز کی فراہمی کیلئے فائبر آپٹک کیبل بچھائی جا چکی ہے۔

2018 کے آخر تک ہم بلوچستان میں 300اور دیگر علاقوں میں 100نفوس پر مشتمل دورافتادہ اور پسماندہ موضعات کو بھی Connectivityفراہم کر دیں گے۔انہوں نے کہا کہ وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی یو ایس ایف کے ذریعے بیت المال کے زیر انتظام چلنے والے وومن ایمپاورمینٹ سینٹرز میں 50 کمپیوٹر لیبارٹریز قائم کرنے جا رہی ہے۔ حال ہی میں ہم نے نیشنل انکیوبیشن سینٹر کے منصوبے کا آغاز کیا ہے جس کے تحت سالانہ5سے 10افراد پر مشتمل 40سٹارٹ اپس کو عملی تربیت فراہم کی جائے گی۔

اور ہم یہ پراجیکٹ موبیلنک کے ساتھ کر رہے ہیں۔ آئی ٹی اور آئی ٹی سے متعلقہ مصنوعات کی برآمدات کی شرح میں 2013ءء سے لیکر آج تک اکتالیس فیصد اضافہ ہو چکا ہے آج فر ی لانسنگ میں پاکستان دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے۔ کورین ایگزم بینک کی معاونت سے اسلام آباد میں 45 ایکڑ رقبہ پر مشتمل پہلا اسٹیٹ آف دی آرٹ ٹیکنالوجی پارک قائم کیا جا رہا ہے اور اس کے بعد لاہور اور کراچی جیسے بڑے شہروں میں اسی نوعیت کے مزید پارک قائم کیے جائیں گے۔

حکومت اس سیکٹر سے وابستہ نوجوانوں کی عملی تربیت کیلئے اور ان کی استعداد کار میں اضافہ کیلئے اسکالرشپس اور انٹرنشپس کا اہتمام کر رہی ہے۔ جس میں خواتین اور بچیوں کیلئے 30 فیصد کوٹہ مختص کیا گیا ہے۔ 2013 سے ابتک حکومت کی طرف سے طلبا کو مکمل مالی معاونت فراہم کرنے کیلئے 1.1بلین کے وظائف دیے جا چکے ہیں۔ پرائم منسٹر سکالرشپ پروگرام کے تحت بلوچستان کے ذہین طلباء کی تعلیم و تربیت پر 112 ملین روپے خرچ کیے گئے ہیں۔

آئی سی ٹی گریجویٹس کی استعداد کار میں اضافہ کے لئے خصوصی انٹرن شپ پروگرام کا آغاز کیا جا رہا ہے جس کے تحت 3000 طلباء کو آئی سی ٹی کی عملی تربیت کے ساتھ ساتھ 15 ہزار روپے ماہانہ وظیفہ بھی دیا جائے گا۔ گلگت بلتستان اور کشمیر جیسے دشوار گزار علاقوں میں مواصلات کی فراہمی کیلئے SCOکا کردار کسی تعارف کا محتاج نہیں ۔SCO جس طرح کٹھن اور دشوار گزار علاقوں میں رھنے والے لوگوں کو ٹیلی مواسلات کی سروسز فراہم کرتا ہے وہ یقینا ایک قا بل ستائش عمل ہے۔