سینیٹ کی خصوصی اوور سائٹ کمیٹی کا سیکرٹری داخلہ کی عدم شرکت پر سخت برہمی کا اظہار ،سیکرٹری داخلہ کے خلاف تحریک استحقاق لانے کا فیصلہ

500سے 600تحقیقاتی افسران ہیں ۔2015میں بد عنوانی کے خلاف 30ہزار شکایتیں موصول ہوئیں ،663کی انکوائریاں ہوئیں اور329کی تحقیقات ہو رہی ہیں ،نیب 10کروڑ سے زائد رقم کے مقدمہ کو دیکھتی ہے ،بلوچستان میں کرپشن میں ملوث سیکرٹری فنانس کے معاملے کو نیب دیکھ رہا ہے ،ایف آئی اے کو صوبے میں کاروائی کا اختیار نہیں کون سا کیس بنانا ہے یا نہیں اس کا فیصلہ چیئرمین نیب کرتا ہے،نیب حکام کی کمیٹی کو بریفنگ

جمعرات 12 مئی 2016 10:03

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔12 مئی۔2016ء) سینیٹ کی خصوصی اوور سائٹ کمیٹی کا سیکرٹری داخلہ کی عدم شرکت پر سخت برہمی کا اظہار ،سیکرٹری داخلہ کے خلاف تحریک استحقاق لانے کا فیصلہ کیاگیا ہے۔نیب حکام نے آگاہ کیا کہ 500سے 600تحقیقاتی افسران ہیں ۔2015میں بد عنوانی کے خلاف 30ہزار شکایتیں موصول ہوئیں۔663کی انکوائریاں ہوئیں اور329کی تحقیقات ہو رہی ہیں ۔

نیب 10کروڑ سے زائد رقم کے مقدمہ کو دیکھتی ہے۔بلوچستان میں کرپشن میں ملوث سیکرٹری فنانس کے معاملے کو نیب دیکھ رہا ہے ۔ایف آئی اے کو صوبے میں کاروائی کا اختیار نہیں کون سا کیس بنانا ہے یا نہیں اس کا فیصلہ چیئرمین نیب کرتا ہے۔نیب اور ایف آئی اے الگ الگ کام کر رہی ہے۔بد عنوانی کے چھوٹی رقوم کے کیسز ایف آئی اے اور بڑی رقوم کے کیسز نیب دیکھتی ہے۔

(جاری ہے)

نیب اور ایف آئی اے میں بہتر رابطے ہیں اور کسی بھی کیس کے حوالے سے کوئی اختلاف نہیں۔چیئرمین کمیٹی سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ ملک بھر میں ایک ہی تحقیقاتی ایجنسی ہونی چاہئے ۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ ایف آئی اے اور نیب کے درمیان آپس میں رابطہ موجود ہے اور کبھی کوئی معاملہ درپیش نہیں ہوا۔بدھ کو کمیٹی کا اجلاس کمیٹی کے چٗرمین جاوید عباسی کی زیر صدارت پالیمنٹ ہاوٗس میں منعقد ہوااجلاس میں سینیٹرز سعید غنی،محمد علی سیف ،نہال ہاشمی کے علاوہ معاون خصوصی وزیر اعظم بیرسٹر ظفر اﷲ خان، وزارت قانون کی ریجنل سیکرٹری نائلہ قریشی،اے ڈی جی نیب شمائل عزیز،سید خالد اقبال،ایف آئی اے کے اے ڈی جی ڈاکٹر محمد شفیق کے علاوہ اعلی حکام نے شرکت کی۔

نیب حکام نے آگاہ کیا گیا کہ نیب آرڈینینس کے تحت کام کرتی ہے نیب کے پاس اعلی اختیارات ہیں کوئی بھی معاملہ بھجوا سکتی ہے اور عدالت سے دوسری عدالت کو بھجوانے کے علاوہ اضافی چالان بھی جمع کرایا جا سکتا ہے۔سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے بھی پشاور ہائی کوٹ میں کے پی کے احتساب کمیشن کے حوالے سے فیصلے میں نیب بنانے کا بڑا مقصد میگا مقدمات اور ریکوری کو مانا ہے۔

نیب کے آٹھ ایس او پی میں نیب افسر کے خلاف شکایت پر کاروائی کی پہلی ترجیح پبلک آفس ہولڈرز کے خلاف مقدمات ،سو ملین سے اوپر کے کیسز،مضاربہ میں پچاس لوگوں سے دس کروڑ تک کا فراڈ، سٹیٹ بنک کے معاملات،منی لانڈرنگ کے مقدمات چیئرمین کی اجازت سے بنائے جاتے ہیں ۔بین الا قوامی سطح پر بھی حکومت کی طرف سے نیب کو فوکل پرسن مقرر کیا ہے۔سٹیٹ بنک کے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ سے بھی مدد لی جاتی ہے۔

چیئرمین کمیٹی سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ ایف آئی اے صر ف پبلک سرونٹس کیلئے بنا تھا ا و ر نیب پبلک آفس ہولڈرز کے لئے لیکن کاروائی دونوں کرتی ہیں۔جس پر آگاہ کیا گیا کہ ایف آئی اے کا قانون اور ریونیو کا دائرہ اختیار فاٹا جی بی اور آذاد کشمیر تک ہے۔ کسی بھی گریڈ کے ملازم یا کسی بھی شخص کے خلاف تحقیقات اور مقدمے کیلئے اجازت کی ضرورت نہیں ہوتی۔