پاسکو کوعدم ادائیگی،وفاقی وزیر نے حکومت کیخلاف بھوک ہڑتال کی دھمکی دیدی

74 ارب کے واجبات کی عدم ادائیگی کی وجہ سے پاسکو کو پانچ ارب 7 کروڑ روپے سالانہ سود ادا کرنا پڑ رہا ہے،یوریا کی بوری پر 780 روپے ٹیکس وصول ملک میں کپاس کی فصل کی کاشت گزشتہ سال کی نسبت کم کی جارہی ہے،گندم کی قیمت دوسرے ملکوں کی نسبت زیادہ ہے،این اے کمیٹی کو بریفنگ

جمعرات 5 مئی 2016 09:29

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔5 مئی۔2016ء) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ میں بتایاگیا ہے کہ وفاقی حکومت کی طرف سے پاسکو کو 74 ارب 8 کروڑ روپے کے واجبات کی عدم ادائیگی کی وجہ سے پاسکو کو پانچ ارب 7 کروڑ روپے سالانہ سود ادا کرنا پڑ رہا ہے۔ وفاقی وزیر نے حکومت کی جانب سے پاسکو کو عدم ادائیگی پر بھوک ہڑتال کی دھمکی دے دی۔

ملک میں کپاس کی فصل کی کاشت گزشتہ سال کی نسبت کم کی جارہی ہے۔ پاکستان میں گندم کی قیمت دوسرے ملکوں کی نسبت زیادہ ہے‘ وزیراعظم کے حکم پر آئندہ اجلاس میں زمینداروں کو بلایا جائے گا۔ یوریا کی بوری پر 780 روپے ٹیکس وصول کیا جارہا ہے۔ فاٹا ‘ گلگت بلتستان میں فلور ملزم بند پڑی ہوئی ہیں۔ کمیٹی کا اجلاس بدھ کے روز منسٹری فوڈ سکیورٹی اینڈ ریسرچ میں چیئرمین ملک شاکر بشیر اعوان کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں اکثریتی ممبران نے شرکت کی۔

(جاری ہے)

کمیٹی میں وفاقی وزیر نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریرچ سکندر حیات بوسن نے کہا کہ ملک میں گندم کی قیمت دنیا سے زیادہ ہے دنیا میں گندم ایک ہزار روپے میں مل رہی ہے اگر کسی کو ضرورت ہو تو کراچی پورٹ سے ایک ہزار روپے میں خرید سکتا ہے۔ مارکیٹ میں گندم کی قیمت کم ہے جبکہ سرکار 1300 روپے میں گندم خرید رہی ہے۔ ملک میں زراعت کی حالت اچھی نہیں پوری دنیا میں سبسڈی دی جارہی ہے لیکن پاکستان میں زمیندروں پر مسلسل ٹیکس لگائے جارہے ہیں۔

کچھ لوگ غلط فہمی میں ہیں کہ زراعت کے شعبے سے وابستہ لوگ بہت کما رہے ہیں۔ پہلے افعانستان کو گندم پاکستان سے جاتی تھی لیکن پاکستانی گندم مہنگی ہونے کی وجہ سے وہ روس سے منگوا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کاٹن ہماری منسٹری کا حصہ ہے لیکن اس کو ٹیکسٹائل کے حوالے کیا گیا ۔ ٹیکسٹائل منسٹری کا زمینداروں سے کیا تعلق ہے۔ اس وقت ملک میں زراعت کی حالت بہت بری ہے۔

اٹھارہویں ترمیم سے پہلے منسٹری کا 32 بلین پی ایس ڈی پی ہوتا تھا آج سارے صوبوں کی زراعت کاپی ایس ڈی پی اکٹھا کرلیں پھر بھی پہلے سے کم بنتا ہے ۔ زراعت سے وابستہ لوگ منافع کیلئے فصلیں اگاتے ہیں اگر ان کو منافع نہیں ملے گا تو وہ کیوں غیر منافی بخش فصلیں کاشت کریں گے۔ کیونکہ پیداواری لاگت بہت زیادہ ہوتی ہے جس کی وجہ سے منافع بہت کم ہوتا ہے اس وقت یوریا کی بوری پر 780 روپے ٹیکس لگایا گیا ہے‘ زراعت کی مشینری منگوانے کیلئے ڈیوٹی 45 فیصد کم کرکے 9 فیصد کی گئی ہے جس کی وجہ سے لوگوں نے باہر زراعت کی مشینری منگوائی ہے ڈیوٹی اور کم کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ پاسکو کی ادائیگی کے حوالے سے میں بھوک ہڑتال کرنے کو تیار ہوں کہ پاسکو کو پیسے دیئے جائیں۔ میں ملک میں کسی پیکج کا حصہ بننا چاہتا کہ جس کیلئے بھیک مانگنا پڑے۔ بارڈر کی دوسری طرف انڈیا میں گندم ایک ہزار روپے میں مل رہی ہے ۔ کسانوں کے اوپر لگائے جانے والے ٹیکو کو ختم کیا جانا چاہیے۔ میرا رونے کو دل کرتا ہے کہ پاکستان میں زراعت ریڑھ کی ہڈی نہیں رہی۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ہمارے چھوٹے چھوٹے کاشتکار ہیں ان کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے تاکہ زراعت کو ریڑھ کی ہڈی بنایا جاسکے۔ انہوں نے گزشتہ میٹنگ کے مینٹس کی منظوری بھی دے دی۔ ایم ڈی پاسکو نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ 2016-17 کیلئے 1.797 میٹرک ٹن گندم خرید جائے گی اس حوالے سے سندھ میں گندم کی خریداری 6 اپریل سے شروع کی جائے گی۔

بلوچستان سے 29 اپریل ‘ پنجاب خان پور ‘ ملتان‘ سے 29 اپریل کو‘ خانیوال اور لیہ سے یکم مئی‘ بہاولنگر ‘ ساہیوال ‘ وہاڑی ‘ پنڈی بھٹیاں سے 2 مئی سے گندم کی خریداری شروع کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ پاسکو نے وفاقی حکومت سے 74 ارب 8 کروڑ روپے وصول کرنے ہیں جس میں کے پی کے سے 750 ملین‘ آزاد کشمیر سے 3435 ملین ‘ گلگت بلتستان سے 35262 ملین‘ ڈیفنس سے 383 ملین‘ گورنمنٹ آف پاکستان سے 34252 ملین روپے ‘ افغانستان سے 1.905 ملین ڈالر وصول کرنے ہیں۔

وفاقی حکومت کی طرف سے رقم نہ ملنے کی وجہ سے پاسکو کو ایک کروڑ 40 لاکھ روپے روزانہ کی بنیاد پر سود ادا کرنا پڑتا ہے۔ کمیٹی کو پنجاب سندھ ‘ کے پی کے اور بلوچستان کے فوڈ ڈیپارٹمنٹ کے حکام نے بھی بریفنگ دی۔ رکن کمیٹی کیپٹن صفدر نے کمیٹی کے اجلاس میں کہا کہ کمیٹی کو گندم کے حوالے سے پالیسی بنانی چاہیے۔ گلگت ‘ فاٹا ‘ آزاد کشمیر میں تمام فلور ملز بند پڑی ہیں تمام آٹا راولپنڈی سے جارہا ہے۔ کے پی کے میں دو سو سے زائد فلور ملزم بند پڑی ہوئی ہیں۔

متعلقہ عنوان :