قتل کے الزام میں عمر قید کی سزا پانے والا ملزم بری

سارے محلے کو پتہ ہوتا ہے قتل کس نے کیا لیکن گواہی کے لیے کوئی تیار نہیں ہوتا،پولیس والے بعد میں گواہ بنوا لیتے ہیں جس سے ملزم بری ہو جاتے ہیں،جسٹس آصف سعید کھوسہ عدالتوں پر تنقید کرنے والے یہ نہیں سوچتے کہ ملزم تو اصل تھا لیکن گواہ جھوٹا تھا ،عدالتی ریما رکس

ہفتہ 30 اپریل 2016 10:09

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔30اپریل۔2016ء ) سپریم کورٹ نے ناقص شہادتوں کی بنیاد پر ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعد م قرار دیتے ہوئے قتل کے الزام میں عمر قید کی سزا پانے والے ملزم ملک ماجد نذیرکو بری کر نے کا حکم دیدیا ، جبکہ دوران سماعت جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ سارے محلے کو پتہ ہوتا ہے قتل کس نے کیا لیکن گواہی کے لیے کوئی تیار نہیں ہوتا ،پولیس والے بعد میں گواہ بنوا لیتے ہیں جس سے ملزم بری ہو جاتے ہیں ، جھوٹی شہادتوں پر ملزم بری ہوتا ہے ، پھر کہا جاتا ہے عدالت نے اصل ملزم کو چھوڑ دیا ، عدالتوں پر تنقید کرنے والے یہ نہیں سوچتے کہ ملزم تو اصل تھا لیکن گواہ جھوٹا تھا ، اسلام کی روح سے گواہ کی ایک غلط بات کی وجہ سے ساری گواہی مسترد کر دی جاتی ہے ، کیس کی سماعت جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی ، مقدمہ کی سماعت شروع ہوئی تو ملزم کے بھائی درخواست گزار عاصم نذیر کے وکیل میاں سکندر حیات خان نے دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ ،مقدمہ کے گواہوں کے بیانات میں تضاد ہے ، گواہ بعد میں بنائے گئے ،ملزم پر جھوٹا الزام لگایا گیا ، ملزم کو سیشن عدالت نے پھانسی کی سزا سنائی جبکہ ہائی کورٹ نے عمر قید میں تبدیل کر دی ، ملزم کے خلاف پیش کی گئی شہادتیں ناکافی ہیں بری کیا جائے ، میرے موکل پر خواتین کو چھیڑنے پر تلخ کلامی میں ہونے والے جھگڑے کے بعد بدلے کے لیے قتل کرنے کا الزام ہے جو سرا سر غلط ہے ایف آئی آر میں درج کرائے گئے بیان اور تفتیشی ٹیم کی رپورٹ میں بھی تضاد ہے ، اس پر مقتول احسان الحق کے وکیل ذولفقار خالد ملکاء پیش ہوئے اوردلائل دیتے ہوئے کہا کہ ، ملزم ملک ماجدنذیرنے گواہوں کی موجودگی میں دیگر ملزمان کے ساتھ ملکر فائرینگ کی ، ملزم کی عمر قید کو برقرا رکھا جائے ، مقتول کے عزیز و اقارب گھر کے باہر گلی میں کھڑے ہو کر کوڑا کرکٹ اٹھانے سے متعلق بات کر رہے تھے ، ملزم گواہوں کے پاس سے گزرتے ہوئے گیا اور چند قدم کی دوری پر احسان الحق کو قتل کر دیا ۔

(جاری ہے)

اس پر جسٹس آصف سعید نے استفسار کیا کہ ، وقوعہ جنوری کے مہینے کا ہے ، اتنی سردی میں گلی میں کھڑے ہو کر کوڑا اٹھانے سے متعلق مشاورت کی کیا تک بنتی ہے ، اس مقدمہ میں بھی اکثر کیسوں کی طر ح گواہ جھوٹے لگتے ہیں ، انہوں نے مزید ریمارکس دیئے کہ سارے محلے کو پتہ ہوتا ہے قتل کس نے کیا لیکن گواہی کے لیے کوئی تیار نہیں ہوتا ،پولیس والے بعد میں گواہ بنوا لیتے ہیں جس سے ملزم بری ہو جاتے ہیں ، جھوٹی شہادتوں پر ملزم بری ہوتا ہے ، پھر کہا جاتا ہے عدالت نے اصل ملزم کو چھوڑ دیا ، عدالتوں پر تنقید کرنے والے یہ نہیں سوچتے کہ ملزم تو اصل تھا لیکن گواہ جھوٹا تھا ، اسلام کی روح سے گواہ کی ایک غلط بات کی وجہ سے ساری گواہی مسترد کر دی جاتی ہے ،اس پر ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل پنجاب زبیر احمد فاروق پیش ہوئے موقف اختیار کیا کہ گھر میں شادی کا ماحول تھا ، خواتین کے ساتھ چھیڑ خانی پر تصادم ہو ا بعد میں ملزم نے بدلا لینے کے لیے قتل کر دیا ، اس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ایف آئی آر کے مطابق قتل رات نو بجے ہوا اس کا مطلب ہے ملزم نے یہ وقت اپنے آپکو چھپانے کے لیے رکھا ، اگر ملزم اپنے آپکو دوسروں کی نظر سے بچانا چاہتا تھا تو وہ گواہوں کے پاس سے گزر کر جا کر قتل کیوں کرتا اس نے بدلا ہی لینا تھا تو وہ بعد میں بھی لے سکتا تھا ، اس پر جسٹس قاضی فائر عیسیٰ نے وکیل سے استفسار کیا کہ بقول آپکے گواہوں نے ملزم کو ہتھار سمیت گزرتے دیکھا ، اگر انہوں نے پہلے دیکھ لیا تھا تو مقتول کی جان کیوں نہیں بچائی ، اس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ مقدمہ میں چار ملزمان کو فریق بنایا گیا ہے تاہم تفتیش کے دوران تمام گولیاں ایک ہی پستول کی ثابت ہوئی ہیں ، دریں اثناء فاضل عدالت نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے کر ملزم کے بھائی کی درخواست منظور کرتے ہوئے ملزم ملک ماجد نذیر کو بری کرنے کا حکم دید دیا جبکہ مدعی کی جانب سے عمر قید کی سزا برقرار رکھنے کی استدعا مسترد کر دی ۔

ملزم پر فیصل آباد کے علاقے تھانہ پیپلزقانی کی حدود میں جنوری 2004میں ایک شخص کو قتل کرنے کا الزام تھا ، ملزم کو سیشن عدالت کی جانب سے پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی جبکہ ہائی کورٹ نے سزا کوعمر قید میں تبدیل کر دیا، جس پر ملزم کے بھائی عاصم نذیر کی جانب سے 2011میں سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی تھی ۔

متعلقہ عنوان :