کراچی،عذیر بلوچ سے متعلق جے آئی ٹی کی حتمی رپورٹ مکمل ہوگئی

پیپلز پارٹی کے کسی سینئر سیاستدان کا نام سامنے نہیں آیا، عذیر بلوچ نے ایرانی انٹیلی جنس ایجنسی سے ملاقات کر کے معلومات فراہم کیں

ہفتہ 30 اپریل 2016 10:09

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔30اپریل۔2016ء)کالعدم پیپلز امن کمیٹی کے سرغنہ عذیر جان بلوچ سے متعلق مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی حتمی رپورٹ مکمل ہوگئی ہے، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے کسی سینئر سیاستدان کا نام سامنے نہیں ہے، عذیر بلوچ نے ایرانی انٹیلی جنس ایجنسی سے ملاقات کی اور معلومات فراہم کیں،بیوی کے نام پر دس اکاوٴنٹس کھول رکھے تھے جس میں کرڑوں کی رقم موجود ہے، جعلی ایرانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بنا رکھا تھا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ رینجرز اور پولیس کے درمیان کچھ متنازع نکات کے باعث جے آئی ٹی کی حتمی رپورٹ کی تیاری میں تاخیر ہوئی۔تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ اب رینجرز اور پولیس کے درمیان اختلافات دور ہوگئے ہیں اور جے آئی ٹی کی رپورٹ جلد عوام کے سامنے لائی جائے گی۔

(جاری ہے)

ذرائع نے کہا کہ متنازع نکات بنیادی طور پر عذیر بلوچ کے چند سینئر سیاستدانوں، پولیس اور رینجرز کے عہدیداران سے مبینہ تعلقات سے متعلق تھے۔

تاہم دونوں فورسز کے سینئر حکام کے درمیان دو ملاقات کے بعد یہ معاملہ حل ہوگیا۔ رینجرز کا دعویٰ تھا کہ عذیر بلوچ نے، ان کی علیحدہ تحقیقات کے دوران سینئر سیاستدانوں سے تعلقات سے متعلق کئی انکشافات کیے، تاہم جب اسے تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیش کیا گیا تو اس نے پیپلز پارٹی کی قیادت سے تعلقات کا اعتراف نہیں کیا۔عذیر بلوچ نے جے آئی ٹی کو بتایا کہ اس کے سینیٹر یوسف بلوچ، رکن اسمبلی ثانیہ ناز اور پیپلز پارٹی کراچی کے صدر عبد القادر پٹیل سے تعلقات تھے۔

ذرائع نے کہا کہ جے آئی ٹی کی حتمی رپورٹ میں پولیس اور رینجرز کے ان سینئر عہدیداران کے بھی نام نہیں ہیں، جن سے متعلق عذیر بلوچ نے جے آئی ٹی کے سامنے انکشاف کیا تھا کہ اس کے پولیس اور رینجرز کے دو عہدیداران سے رابطہ تھاتاہم جے آئی ٹی نے حتمی رپورٹ میں ان دونوں عہدیداران کے نام شامل نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ذرائع کا کہنا تھا کہ تحقیقاتی ٹیم 46 صفحات پر مشتمل حتمی رپورٹ کے مسودے میں اس نتیجے پر پہنچی کہ عذیر بلوچ 159 افراد کے قتل میں ملوث تھا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عذیر بلوچ نے تحقیقاتی ٹیم کے سامنے کسی عسکری ونگ کو چلانے کا اعتراف نہیں کیا۔عذیر بلوچ نے پولیس، رینجرز اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے افسران پر مشتمل تحقیقاتی ٹیم کو بتایا کہ وہ صرف پیپلز امن کمیٹی کا سیاسی ونگ چلاتا تھا، جبکہ تین گینگسٹرز نور محمد عرف بابا لاڈلہ، شیراز کامریڈ اورتاج محمد عرف تاجو خود سے آزادانہ طور پر امن کمیٹی کا عسکری ونگ چلاتے تھے۔

اپنی ذرائع آمدنی کے حوالے سے عزیر بلوچ نے تحقیقاتی ٹیم کو بتایا کہ والد سے وراثت میں ملنے والا ٹرانسپورٹ کا کاروبار، اس کا اہم ذریعہ معاش تھا، جبکہ امن کمیٹی کے سربراہ کی حیثیت سے علاقے میں تمام مالی اور جائیداد کے تنازعات ختم کرانے پر بھی اسے 10 فیصد حصہ ملتا تھا۔ذرائع نے بتایا کہ عذیر بلوچ نے بیوی کے نام پر دس اکاوٴنٹس کھول رکھے تھے جس میں کرڑوں کی رقم موجود ہے۔

عذیر بلوچ نے جعلی ایرانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بنا رکھا تھا۔ عذیر بلوچ نے حاجی نثار کے ذریعے ایرانی انٹیلی جنس ایجنسی سے ملاقات کی اور معلومات فراہم کیں۔ عذیر بلوچ 2013 میں ایران کے راستے دبئی فرار ہو گیا تھا۔ عزیر بلوچ کے والد کو ارشد پپو نے 2003 میں قتل کیا اور 2008 میں عزیر بلوچ نے پیپلز امن کمیٹی قائم کی۔ عذیر بلوچ کو 2006 میں بھی گرفتار کیا گیا۔

متعلقہ عنوان :