کے ای ایس سی کو آڈٹ کرانے تک اربوں کی ادائیگیاں روک دی جائیں ، پی اے سی کو ہدایت

کے ای ایس سی سستی بجلی حکومت سے لینے کیلئے اپنا بجلی گھر بند کردیتے ہیں ، سسٹم میں سرمایہ کاری بھی نہیں کی ، لوڈ بڑھنے پر پورا سسٹم ٹرپ کرجاتا ہے ، پی اے سی اجلاس میں کے ای ایس سی کی کارکردگی کے حقائق سامنے آگئے

جمعرات 28 اپریل 2016 09:21

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔28اپریل۔2016ء) پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں انکشاف ہوا ہے کہ سندھ اور کراچی میں لوڈ شیڈنگ کی بڑی وجہ کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن نے اپنے بجلی گھروں کو بند کررکھا ہے اور سستی بجلی حکومت سے حاصل کرنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔

(جاری ہے)

پی اے سی نے کے ای ایس سی کی کارکردگی کو اربوں روپے کی ادائیگیاں روک دی اور یہ ادائیگیاں ا س وقت کی جائینگی جب وہ اپنے مالی اکاؤنٹس کا آڈٹ کرینگے یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ کے ای ایس سی اب تک وفاقی حکومت سے دو سو پچاس ارب روپے سبسڈی کی صورت میں وصول کرچکی ہے جس کا آڈٹ ہی نہیں کرایا گیا پی اے سی کا اجلاس گزشتہ روز خورشید شاہ کی صدارت میں ہوا جس میں واپڈا اور کے ای ایس سی کو دی جانے والی اربوں روپے کی سبسڈی پر سیکرٹری پانی و بجلی اور نیپرا حکام نے بریفنگ دی اجلاس کو نیپرا حکام نے بتایا کہ کے ای ایس سی کے پاور ہاؤسز ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں تاہم وہ صرف تین سو میگا واٹ بجلی ہی پیدا کرتے ہیں باقی چھ سو میگا واٹ واپڈا سے سستی نرخوں پر بجلی حاصل کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ کے ای ایس سی نے گزشتہ دس سالوں میں اپنے سسٹم یعنی ٹرانسفارمر گرڈ اسٹیشن اور تاروں کو تبدیل ہی نہیں کیا نیپرا نے بتایا کہ جب لوڈ بڑھتا ہے تو سسٹم ٹرپ کر جاتے ہیں انہوں نے کہا کہ اب کے ای ایس سی نے چار سو ملین ڈالر کا قرضہ لینے بارے آگاہ کیا ہے جو سسٹم کی بہتری پر خرچ ہوگا انہوں نے کہا کہ کراچی اور سندھ میں بجلی کی ترسیل کا سسٹم اپ گریڈ نہ کرنے تک لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ حل نہیں ہوسکتا انہوں نے مطالبہ کیا کہ کے ای ایس سی کو چاہیے کہ وہ اپنے سسٹم پر سرمایہ کاری کرے نیپرا حکام نے یہ بھی بتایا کہ کے ای ایس سی کی انتظامیہ نے نجکاری معائدے پر عمل ہی نہیں کیا حالانکہ سبسڈی کی صورت میں حکومت سے دو سو پچاس ارب روپے بھی وصول کرچکی ہے نیپرا نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ کے ای ایس سی اور سوئی سدرن کے مابین گیس خریداری کا معاہدہ ختم ہوچکا ہے جس پر عذرا پیچوہو نے کہا کہ لگتا ہے کہ کے ای ایس سی پرانے سسٹم پر سندھ اور کراچی والوں کو ٹرخا رہی ہے کے ای ایس سی سوئی سدرن نے ایل پی ایس کے 65ارب روپے بھی ادا نہیں کررہا جس سے ادائیگیوں کا مسئلہ پیدا ہوا ہے سید خورشید شاہ نے کہا کہ کے ای ایس سی کی نجکاری کا کیا فائدہ ہوا ہے حالانکہ حکومت کے ابھی تک 23فیصد شیئرز موجود ہیں سیکرٹری یونس ڈھاگا نے کہا کہ سبسڈی کا فیصلہ حکومت کرتی ہے اس کی ذمہ داری وزارت خزانہ پر ہے نرخ مقرر کرنا کا فیصلہ بھی حکومت کا کام ہے حکومت سبسڈی وہاں دیتی ہے جہاں لاگت زیادہ آتی ہو تاہم نیپرا نے کہا کہ سوئی سدرن معاہدے کے بغیر کے ای ایس سی کو گیس فروخت کررہی ہے سیکرٹری یونس ڈھاگا نے کہا کہ کراچی میں بجلی بند کرنا سیاسی مسئلہ بن جاتا ہے حکومت کو کراچی میں ڈیفالٹروں کے خلاف ایکشن لینا مشکل کام ہے پی اے سی نے ہدایت کی ہے کہ کے ای ایس سی کے حسابات کا مکمل آڈٹ کرایا جائے اور پھر ادائیگیاں کی جائیں پی اے سی نے وزارت پٹرولیم میں میں تربیت کے لئے مختص فنڈز کے تحت بیرون ملک تربیت حاصل کرنے والے افسران کا مکمل ریکارڈ بھی طلب کرلیا ہے پی اے سی اجلاس میں نوید قمر ، عذرا پیچوہو عاشق گوپانگ جنید انور چوہدری رمیش کمار نذیر سلطان راجہ جاوید اخلاص میاں منان شیخ روحیل اصغر شاہد اختر علی وغیرہ نے شرکت کی

متعلقہ عنوان :