پانامہ لیکس انکوائری کمیشن کی انکوائری کے لئے ججوں کو راضی کرنے کیلئے وزیراعظم کا سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری سے رابطہ،انوشہ رحمان کو بھی ججوں کو راضی کرنے کیلئے تمام وسائل بروئے کار لانے کا ٹاسک مل گیا

پیر 11 اپریل 2016 09:16

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔ 11اپریل۔2016ء) وزیراعظم نواز شریف نے پاناما لیکس کی تحقیقات کے لئے ریٹائرڈ ججوں کو راضی کرنے کیلئے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے مدد مانگ لی ہے۔ وزیراعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف تحقیقات کے لئے کوئی بھی اچھی شہرت کا حامل ریٹائرڈ جج قائم انکوائری کمیشن کا سربراہ بننے کو تیار نہیں ہے۔

ججوں کے واضح انکار کے بعد وزیراعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کو انتہائی مایوسی کا سامنا ہے اور اب اس مقصد کے لئے وزیراعظم اپنے سابقہ قریبی ججوں سے مدد مانگ رہے ہیں۔ خبر رساں ادارے کے مطابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے انتہائی قریبی ساتھی نے بتایا ہے کہ وزیراعظم کے ایک انتہائی قریبی ساتھی نے افتخار چوہدری سابق چیف جسٹش سے رابطہ کیا ہے اور کسی سابق جج کو انکوائری کمیشن کا سربراہ بننے پر راضی کرنے کی ذمہ داری دی ہے۔

(جاری ہے)

وزیراعظم کے ساتھی نے افتخار چوہدری سے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ وہ جج پنجاب یا کے پی کے سے ہونا چاہئے تاہم سابق چیف جسٹس نے واضح کیا ہے کہ وہ کسی جج کو انکوائری کمیشن کا سربراہ بننے کے لئے دباؤ نہیں ڈال سکتے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ سے بھی رابطہ کیا گیا ہے کہ وہ انکوائری کمیشن کا سربراہ بن جائیں۔ ذرائع نے بتایا کہ ججوں کو راضی نہ کرنے پر وزیراعظم قانونی مشیر بیرسٹر ظفر اللہ خان سے شدید برہمی ظاہر کی ہے اور اب انہیں ججوں سے رابطہ رکھنے کی ذمہ واپس لے لی ہے اب یہ ذمہ داری اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کو دی گئی ہے۔

بیرسٹر ظفر اللہ خان ذاتی طور پر وکیل نہیں ہیں اور نہ آج تک کسی جج کے سامنے کوئی بڑا مقدمہ لڑا ہے وہ ایک ٹیچر کی حیثیت رکھتے ہیں اور شریف خاندان کے قانون کاغذات تیار کرتے رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم نواز شریف کی انتہائی قریبی دوست اور ہم راز وزیر مملکت انوشہ رحمان کو بھی کہا گیا ہے کہ وہ ریٹائرڈ ججوں کو ہر حال میں راضی کریں اور اس مقصد کے حصول کے لئے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں۔