بینک دولت پاکستان کا پالیسی ڈسکاؤنٹ ریٹ 6فیصد پر برقرار رکھنے کا اعلان

اتوار 10 اپریل 2016 10:58

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔ 10اپریل۔2016ء)بینک دولت پاکستان نے زرعی پالیسی کمیٹی کے فیصلے کے مطابق پالیسی ڈسکاؤنٹ ریٹ 6فیصد پر برقرار رکھنے کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ حکومت اسٹیٹ بینک سے لیے گئے قرضے تو واپس کر رہی ہے لیکن ان قرضوں کی واپسی کے لئے جدولی بینکوں پر انحصار کیا جا رہا ہے جس سے حکومت کی جدولی بینکوں سے قرض گیری مسلسل بڑ ھ رہی ہے حالانکہ پہلے ہی نجی شعبے کاجدولی بینکوں پر قرضے کی ضروریات زیادہ ہیں ، صرف چھ ماہ میں مہنگائی کی شرح میں2.6فیصد اضافہ ہوا ہے ،سال بسال مہنگائی جوستمبر2015ء میں1.3فیصد تھی مارچ 2016ء میں بڑھ کر3.9فیصد تک جا پہنچی ہے ،ترقیاتی اخراجات میں اضافے کے باوجود مالی سال16ء کی پہلی ششماہی میں مالیاتی خسارہ قابو میں رہا ہے اسی مدت میں وفاقی ٹیکس محاصل میں14.6فیصد اضافہ درج ہوا تاہم برآمداتی وصولیوں میں گراوٹ پریشان کن ہے اور عالمی تجارت میں عمومی کمزوری سے یہ پریشانی مزید بڑھ جائے گی ۔

(جاری ہے)

بینک دولت پاکستان ہفتہ کے روز آئندہ دو ماہ کیلئے جاری کردہ زر عی پالیسی رپورٹ میں کہا کہ ستمبر 2015ء میں پست ترین ہونے کے بعد سال بسال عمومی مہنگائی اور مدّتی اوسط مہنگائی دونوں میں اضافے کا رجحان دیکھا جا رہا ہے ۔ مدّتی اوسط مہنگائی اس عرصہ کے دوران 1.7 فیصد سے 2.6 فیصد ہو گئی۔ اسی طرح، سال بسال بنیادی (core) مہنگائی میں بھی اضافے کا رجحان دیکھا گیا، بنیادی مہنگائی کے غیر غذائی غیر توانائی (NFNE) پیمانے میں مسلسل پانچویں ماہ اور تراشیدہ اوسط(trimmed mean) پیمانے میں مسلسل تیسرے ماہ اضافہ ہوا۔

تاہم مہنگائی میں یہ اضافہ متوقع تھا، اور مالی سال کے بقیہ مہینوں کے لیے مہنگائی کی سازگار صورتحال بڑی حد تک برقرار رہے گیتاہم مہنگائی کے یہ رجحانات مجموعی طلب میں اضافے کی علامت ہیں جبکہ امن و امان کی صورتحال اور حقیقی آمدنیوں میں بہتری آئی ہے۔ اس امر کی عکاسی پائیدار صارفی اشیا کی بڑھتی ہوئی طلب، تعمیراتی سرگرمیوں میں اضافے اور خدمات کے شعبے میں توسیع سے ہوتی ہے۔

اسٹیٹ بینک کے مطابق صارفین کے مثبت احساسات اور اضافی قرضوں کی شرحوں کے نمایاں پست ہونے کی بدولت توقع ہے کہ نجی شعبے کے قرضے مالی سال 16ء کے اختتام پر مالی سال 15ء کے مقابلے میں بلند سطح پر ہوں گے اس کے ساتھ ساتھ بہتر کاروباری احساسات، خام مال کی کم قیمتوں اور توانائی کی دستیابی میں بہتری کے ساتھ رسد کی صورت حال بھی بہتر ہوئی ہے۔ جولائی تا جنوری مالی سال 16ء کے دوران بڑے پیمانے کی اشیا سازی (LSM) میں 4.1 فیصد نمو ہوئی جس میں گاڑیوں، سیمنٹ اور کھاد کے شعبے کا حصہ زیادہ تھا جبکہ جولائی تا جنوری مالی سال 15ء میں یہ 2.5 فیصد بڑھی تھی۔

توقع ہے کہ فولاد، کاغذاور گتّے کے شعبہ جاتی مسائل اور ٹیکسٹائل کی کمزور کارکردگی کے باوجود بڑے پیمانے کی اشیا سازی میں بہتری اور صنعتی نمو کے رجحانات میں تسلسل رہے گا۔ مزید برآں، اہم غذائی اشیا کے بھاری ذخائراور فروری 2016ء میں تیل کی پست قیمتوں کی صارفین کو منتقلی کے باعث توقع ہے کہ مہنگائی میں کمی کے لیے دباؤ برقرار رہے گا۔ اعتمادِ صارف کے آئی بی اے ایس بی پی سروے کے تازہ ترین نتائج میں مہنگائی کی توقعات میں کمی سے بھی اس بات کی تصدیق ہوتی ہے۔

مذکورہ تبدیلیوں کی پیروی میں بازار زر اور بازار مبادلہ دونوں میں حالیہ مہینوں کے دوران قدرے اطمینان دیکھا گیا۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق تیل کی پست قیمتوں، ترسیلات زر اور نسبتاً پْرسکون بین الاقوامی سرمایہ منڈیوں کی بدولت بازار مبادلہ کے احساسات بہتر ہوئے۔ اس کے نتیجے میں جنوری 2016ء کی زری پالیسی کے بعد والی مدت میں پاکستانی روپیہ انٹربینک مارکیٹ میں مستحکم رہا۔

بازارِ زر کے شبینہ ریپو ریٹ (overnight repo rate ) میں اتار چڑھاؤ محدود رہا۔ جنوری 2016ء کی زری پالیسی کے بعد کی مدت میں بہ وزن اوسط شبینہ ریپو ریٹ پالیسی ریٹ سے 3 بیسس پوائنٹ زائد رہا، جبکہ نومبر 2015ء کی زری پالیسی کے بعد کی مدت میں یہ پالیسی ریٹ سے 21 بیسس پوائنٹ زائد تھا۔ چنانچہ کائبور (KIBOR) اور مارکیٹ کی شرح سود کم ہو چکی ہیں جس سے طویل عرصہ تک کے لیے پست مہنگائی کی توقعات کا اظہار ہوتا ہے تاہم مارکیٹ کی سیالیت کی ضروریات اس بنا پر بڑھ گئیں کہ حکومت اسٹیٹ بینک سے لیے گئے قرضے کی واپسی کا رجحان مسلسل ظاہر کر رہی ہے اور اس واپسی کے لیے وہ جدولی بینکوں سے قرض گیری بڑھا رہی ہے، جبکہ نجی شعبے کی قرضے کی ضروریات بھی نسبتاً بلند ہیں۔

ترقیاتی اخراجات میں اضافے کے باوجود مالی سال 16ء کی پہلی ششماہی میں مالیاتی خسارہ قابو میں رہا۔ یہ بہتری اخراجات جاریہ کو محدود کرنے اور ٹیکس محاصل میں تیزی سے اضافے کی بنا پر آئی۔ مالی سال 16ء کی پہلی ششماہی کے دوران وفاقی ٹیکس محاصل میں 14.6 فیصد اضافہ درج ہوا جبکہ مالی سال 15ء کی پہلی ششماہی میں یہ اضافہ صرف 3.9 فیصد رہا تھا۔جہاں تک تجارتی توازن کا تعلق ہے تو تیل کے درآمدی حجم میں اضافے کے ساتھ ساتھ مشینری اور ٹرانسپورٹ آ لات کی بلند درآمد سے قطع نظر جولائی تا فروری م س 16ء کے دوران تجارتی توازن گذشتہ سال کی سطح پر ہی رہا۔

کچھ عرصہ سے مشینری کی درآمد بڑھنے اور ملکی حالات میں بہتری کے باوجود برآمدات بدستور گر رہی ہیں۔ تاہم، ترسیلاتِ زر میں معتدل نمو کے نتیجے میں جاری حسابات کے خسارے میں معمولی کمی واقع ہوئی۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق بیرونی براہِ راست سرمایہ کاری کی آمد میں خالص اضافے، اور مالی سال 16ء کے جولائی تا فروری عرصہ کے دوران ملنے والی خالص بیرونی امداد سے سرمایہ اور مالی کھاتہ کم و بیش گذشتہ سال ہی کی سطح پر رہا۔

چنانچہ ان تبدیلیوں کے باعث اس مدت کے دوران ادائیگیوں کے مجموعی توازن میں فاضل رقم آئی اور زرِمبادلہ کے سرکاری ذخائر میں شامل ہوئی۔ توقع ہے کہ یہ رجحانات برقرار رہیں گے اور اس لیے مالی سال 16ء کے بقیہ مہینوں میں ادائیگیوں کے توازن کی صورتحال مثبت رہے گی۔ تاہم نجی سرمائے کی پست آمد بیرونی شعبے کی وسط مدتی پائیداری کے لیے چیلنج بن سکتی ہے۔

اسٹیٹ بینک نے زری پالیسی رپورٹ میں بتایا ہے کہ بیرونی براہِ راست سرمایہ کاری کے لیے کئی خوش آئند امکانات موجود ہیں مثلاً موجودہ کلی معاشی استحکام، امن و امان کی بہتر صورتحال، پاک چین اقتصادی شاہراہ کے سلسلے میں سرمایہ کاری تاہم برآمداتی وصولیوں میں تخفیف پریشان کن ہے۔ عالمی تجارت میں عمومی کمزوری سے یہ پریشانی مزید بڑھ جائے گی۔

چنانچہ مصنوعات میں بہتر اضافہ آ قدر کے لیے جن مواقع کی ضرورت ہوتی ہے، موجودہ بہتر ملکی حالات وہ مواقع فراہم کرتے ہیں، نیز ان سے فائدہ اٹھا کر مصنوعات اور منڈیوں میں تنوّع لایا جا سکتا ہے تاکہ برآمدات میں مستحکم نمو حاصل کی جا سکے۔ مذکورہ بالا کے پیشِ نظر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی زری پالیسی کمیٹی نے پالیسی ریٹ 6.0 فیصد برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔

متعلقہ عنوان :