افغانستان میں پاکستان کیخلاف منفی پراپیگنڈہ پر تحفظات ہیں،سرتاج عزیز ،پاک افغان سرحد پر مانیٹرنگ کا جامع نظام نصب کرنے کی ضرورت ہے تاکہ دہشت گردوں کو روکا جائے، ا فغان امن عمل میں افغان حکومت یا کسی اور گروہ کو ڈکٹیٹ یا بات چیت شروع کرنے کیلئے ڈیڈ لائن نہیں دی جا سکتی، افغانستان کے حوالے سے منعقدہ مذاکرات سے خطاب ، جب تک افغانستان میں امن نہیں ہو گا پاکستان میں بھی نہیں ہو گا،دونوں ممالک کو ایک دوسرے سے بات چیت کرنی چاہئے ،افغان سفیر

جمعہ 8 اپریل 2016 10:43

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔ 8اپریل۔2016ء)وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ افغانستان میں پاکستان کیخلاف منفی پراپیگنڈہ پر تحفظات ہیں، پاک افغان سرحد پر مانیٹرنگ کا جامع نظام نصب کرنے کی ضرورت ہے جس سے دہشت گردوں کو روکا جائے گا ، افغانستان میں قیام امن کے لئے افغان حکومت یا کسی اور گروہ کو ڈکٹیٹ یا ان کو بات چیت شروع کرنے کے لئے کوئی ڈیڈ لائن نہیں دی جا سکتی ۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعر ات کے روز جناح انسٹیٹیوٹ کی جانب سے افغانستان کے حوالے سے منعقدہ مذاکر ے سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ انہوں نے کہا کہ جنوبی ایشیاء کے پورے خطے کے لئے افغانستان میں امن ضروری ہے افغان طالبان حکومت میں براہ رات مذاکرات کے لئے کوشاں ہے افغان امن مذاکرات بارے تمام فریقین مذاکرات پر متفق ہیں، پاکستان ان مذاکرات میں سہولت کار ہے چین اور امریکہ کی مدد سے افغان امن مذاکرات کے لئے کوششیں کر رہے ہیں انہوں نے کہا کہ افغانستان میں پاکستان کے خلاف منفی پراپیگنڈہ سے ہمیں تحفظات ہیں پاک افغان سرحد پر مانیٹرنگ کی موثر نظام کی ضرورت ہے جس کے ذریعے دہش گردی کی کارروائی سے روکا جا سکے گا ۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ خطے کے ممالک خصوصاً کوارٹریٹ گروپ کیو سی جی میں شامل ممالک مصالحت کو آگے بڑھانے کے لئے مل کر اقدامات اٹھا سکتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ جو گروپس بات چیت کے عمل میں شامل نہیں ہونا چاہتے ان عناصر سے کس طرح نمٹا جا سکتا ہے اس حوالے سے بھی کیو سی جی فیصلہ کرے گا ۔سرتاج عزیز نے کہا کہ تقریباً 10 سال سے زائد عرصہ سے افغانستان میں فوج کو استعمال کرنے والے عمل سے مسائل حل نہیں ہوئے ہیں انہوں نے کہا کہ افغانستان میں مختلف گروپ کے درمیان بات چیت کے ذریعہ وہاں امن و استحکام لایا جا سکتا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ آئندہ کیو سی جی کے اجلاس کے حوالے سے تاریخ کا تعین ابھی تک نہیں ہوا ہے انہوں نے کہاکہ پاکستان کو افغانستان میں ہونے والے خون خرابے پر افسوس ہے اور پاکستان سے زیادہ اس بات سے کون واقف ہو گا کہ دہشت گردی سے کتنے مسائل جنم لیتے ہیں کیونکہ پاکستان خود دہشتگردی کا شکار ہے اور پاکستان کے اس ضمن میں ہزاروں عام شہری اور 5000 ہزار کے قریب افواج اور دیگر سیکورٹی فورسز کے افراد نے اپنی جانوں کے نذرانے دیئے ہیں انہوں نے کہا کہ چارسدہ ، لاہور اور مل کے دیگر علاقوں میں دہشت گردی کے واقعات میں قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا ۔

انہوں نے کہا کہ فغانستا ن میں امن و امان بحال ہو گا تو خطے میں امن وسلامتی ہوگی ۔انہوں نے کہا کہ جب بھی پاکستان کی جانب سے دونوں ممالک کے درمیان سرحد کی حفاظت کے لئے اقدامات کی باتیں کی جاتی ہیں تو اسے غلط نظر سے دیکھا جاتا ہے اب دونوں ممالک سرحدوں کی حفاظت کے لئے نیا ایس او پی بنایا جا رہا ہے۔اس موقع پر افغانستان کے پاکستان میں سفیر عمرزا خیلوال نے خطاب میں کہا کہ جب تک افغانستان میں امن نہیں ہو گا تب تک پاکستان میں بھی امن نہیں ہو گا انہوں نے کہا کہ اس وقت دونوں ممالک کو چیلنجز کا سامنا ہے ،دونوں سے ایک دوسرے سے بات چیت کرنی چاہئے انہوں نے کہا کہ افغانستان اور خطے کے حالات کے باعث پاکستان کو ہر سال ستر سے اسی ارب ڈالر کا نقصان ہورہا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان میں جو لوگ کاروبار کرتے ہیں انہیں یا تو پاکستان کی زمین استعمال کرنے یا وہاں کی حمایت حاصل ہے اور اس حوالے سے پاکستان کے ادارے پوری طرح واقف ہیں انہوں نے کہا کہ افغانستان اور پاکستان کے عوام کے درمیان بہت سی چیزیں مشترکہ ہیں جن میں تاریخ ، ثقافت ، مذہب ، زبانیں ، قائل ۔ انہوں نے کہا کہ عوام تعلیم دانوں صحافیوں اور دیگر شعبہ جات کے ایک دوسرے ممالک میں دوروں پر زور دیا ایک سوال کے جواب میں افغان سفیر نے کہا کہ پشاور آرمی پبلک سکول پر حملہ کرنے کے ملزمان گرفتار کرنے میں افغانستان کی جانب سے اہم کردار ادا کیا گیا ہے جبکہ افغانستان میں جنگ کے باعث حکومت کی عملدرآمد محدود ہے جناح انسٹی ٹیوٹ کی صدر نے کہا کہ افغانستان میں بات چیت کے ذریعے مسئلہ کا پائیدار حل ہوگا انہوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کو دہشتگردی سے نمٹنے کیلئے تجارت اور راہداری کے لئے ایک دوسرے کا تعاون درکار ہے ۔