وزیراعظم کاالزام تراشی کی تحقیقات کیلئے اعلیٰ سطحی عدالتی کمیشن قائم کرنے کا اعلان،کمیشن کے سربراہ سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج ہوں گے جو حتمی تحقیقات کے بعد فیصلہ دے گا کہ اصل حقیقت کیا ہے اور الزامات میں کتنا وزن ہے، الزامات اور روز تماشا لگانے والے اس کمیشن کے پاس جائیں اور اپنے الزامات ثابت کریں، وزیراعظم محمد نواز شریف کا قوم سے خطاب

بدھ 6 اپریل 2016 10:21

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔ 6اپریل۔2016ء) وزیراعظم محمد نواز شریف نے کہا ہے کہ ہم نے وطن عزیز کو اندھیروں سے پاک کرنے اور تعمیر و ترقی کی نئی بلندیوں کی طرف لے جانے کا عہد کر رکھا ہے اور ہماری تمام تر توجہ اس عہد پر مرکوز ہے، 25 سالوں سے بار بار دہرائے جانے والے الزامات کو ایک بار پھر میڈیا پر اچھالا جا رہا ہے، الزام تراشی کی تحقیقات کے لئے اعلیٰ سطحی عدالتی کمیشن قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے سربراہ سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج ہوں گے جو حتمی تحقیقات کے بعد فیصلہ دے گا کہ اصل حقیقت کیا ہے اور الزامات میں کتنا وزن ہے۔

الزامات اور روز تماشا لگانے والے اس کمیشن کے پاس جائیں اور اپنے الزامات ثابت کریں، حکومت سے باہر ہوں یا حکومت کے اندر، میں یا میرے خاندان کے کسی فرد نے قومی امانت میں رتی بھر خیانت نہیں کی اور کبھی اقتدار کو کاروبار سے منسلک نہیں کیا۔

(جاری ہے)

منگل کو قوم سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم محمد نواز شریف نے کہا کہ میں اپنی پوری سیاسی زندگی میں آج پہلی بار ذاتی حوالے سے کچھ کہنے کے لئے عوام کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں۔

مجھے ان گذارشات کی ضرورت اس لئے محسوس ہوئی کہ ایک بار پھر کچھ لوگ اپنے سیاسی مقاصد کے لئے مجھے اور میرے خاندان کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ 25 سالوں سے بار بار دہرائے جانے والے الزامات کو ایک بار پھر میڈیا پر اچھالا جا رہا ہے۔ میں چند بنیادی حقائق قوم کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں تاکہ قوم خود اندازہ لگا سکے کہ ان الزامات کی حقیقت کیا ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ قیام پاکستان سے کئی سال قبل میرے والد صاحب نے لاہور سے کاروبار کا آغاز کیا اور اتفاق فاؤنڈری کی بنیاد ڈالی۔ قیام پاکستان تک یہ ایک مستحکم اور مضبوط صنعتی ادارہ بن چکا تھا، اس کی ایک شاخ ڈھاکہ یعنی مشرقی پاکستان میں بھی قائم ہو چکی تھی، یہ صنعتی ادارہ ہزاروں خاندانوں کو روزگار کی فراہمی کا ذریعہ بن چکا تھا اور قومی خزانہ میں ٹیکسوں کی صورت اپنا حصہ ڈال رہا تھا۔

16 دسمبر 1971ء کو مشرقی پاکستان میں قائم اتفاق فاؤنڈریز سقوط ڈھاکہ کی نذر ہو گئی، اس کے ٹھیک 15 دن بعد 2 جنوری 1972ء کو ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے لاہور میں ہماری اتفاق فاؤنڈری پر قبضہ کرلیا اور یہ اس وقت مغربی پاکستان میں اسٹیل، مشینری اور انجینئرنگ کی سب سے بڑی صنعت بن چکی تھی۔ یوں 1936ء سے ہمارے بزرگوں کی محنت، سرمایہ کاری اور جمع پونجی ایک لمحے میں ختم کر دی گئی۔

یہ ظلم اور زیادتی ہمارے والد مرحوم کے عزم اور حوصلے میں کوئی کمزوری نہیں پیدا کر سکی۔ انہوں نے کہا کہ کوئی لمحہ ضائع کئے بغیر میرے والد نے الله کا نام لے کر ایک بار پھر کمر باندھی اور بھٹو دور کے اندر ہی 18 ماہ کے اندر اندر چھ فیکٹریاں قائم کرلیں، یہ وطن سے محبت کی ایک ایسی داستان ہے جس کی مثال کم ہی ملے گی۔ اتفاق فاؤنڈریز جولائی 1979ء میں ہمیں کھنڈرات کی شکل میں واپس ملی۔

ہمارے والد نے تباہ شدہ مالی حالت والے اس اجڑے ہوئے ڈھانچے کو انتہائی مشکل اور ناسازگار حالات میں دوبارہ صنعتی ادارے کی شکل دی۔ عزم و ہمت کی اس داستان کا تعلق اس دور سے ہے جب میں نیا نیا یونیورسٹی کی تعلیم سے فارغ ہوا تھا اور میرا یا میرے خاندان کے کسی فرد کا سیاست یا حکومت سے دور کا بھی تعلق نہیں تھا، اس عرصے کے دوران یہ ادارے ملکی معاشی ترقی میں ایک توانا کردار ادا کرتے ہوئے ملکی خزانے میں کروڑوں روپے کے ٹیکس اور محصولات جمع کراتے رہے۔

وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ جب ہم سیاست سے کوسوں دور تھے تو بھی آزمائش سے گذرنا پڑا اور سیاست میں آنے کے بعد بھی ہم سیاسی اور ذاتی انتقام کا نشانہ بنتے رہے۔ 1989ء میں ہماری فیکٹری کا خام مال لانے والے بحری جہاز جوناتھن کو ایک سال تک سامان اتارنے کی اجازت نہیں دی گئی اس کے باعث ہمیں پچاس کروڑ روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا، اس وقت کا پچاس کروڑ آج کے شاید پچاس ارب روپے سے بھی زیادہ ہوگا۔

پیپلز پارٹی کے دوسرے دور میں بھی ہمارے کاروبار کی معاشی ناکہ بندی کی گئی اور مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے اتفاق فاؤنڈریز کی چمنیاں ٹھنڈی کر دی گئیں اور پھر 1998ء میں جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد 14 ماہ تک ہمیں جیلوں میں ڈالے رکھا، ہمارے کاروبار کو ایک بار پھر مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا اور یہاں تک کہ ماڈل ٹاؤن میں ہمارا آبائی گھر بھی چھین لیا گیا جہاں ہم ہمارے والدین اور ہمارے بچے رہتے تھے، ہمیں ملک بدر کر دیا گیا، قوم کی آنکھوں کے سامنے یہ سب کچھ ہوا۔

ساری حکومتی مشینری کو ہمارے کاروبار، بینک کھاتوں صنعتی یونٹس اور دیگر معاملات کے بے رحمانہ احتساب پر لگا دیا گیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ سالہا سال تک ہم اس یکطرفہ احتساب کے پل صراط پر چلتے رہے لیکن الله کے فضل و کرم سے ہمارے قدم کبھی نہ ڈگمگائے۔ ہم قانون اور انصاف کے ہر معتبر فورم سے سرخرو ہو کر نکلے، کسی بھی عدالت میں ہمارے خلاف کوئی بھی الزام ثابت نہ کیا جا سکا، جلاوطنی کے ایام میں ہمارے والد نے ایک بار پھر مکہ معظمہ کے قریب اسٹیل کا ایک کارخانہ لگایا جس کے لئے سعودی بینکوں سے قرض حاصل کیا گیا اور چند برس بعد یہ فیکٹری تمام اثاثوں سمیت فروخت کر دی گئی اور یہ وسائل میرے بیٹوں حسن نواز اور حسین نواز اور نے اپنے نئے کاروبار کے لئے استعمال کئے۔

حسن نواز 1994ء سے لندن میں مقیم ہیں اور حسین نواز 2000ء سے سعودی عرب میں رہائش پذیر ہیں، دونوں ان ممالک کے قوانین اور قواعد و ضوابط کے مطابق اپنا کاروبار کرتے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ یہ عجیب منطق ہے کہ ہمارے بچے ملک کے اندر رزق کمائیں تو بھی تنقید اور بیرون ملک محنت کر کے اپنا کاروبار قائم کریں تو بھی الزامات کی زد میں رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کرپشن یا ناجائز ذرائع سے دولت جمع کرنے والے نہ تو اپنے نام پر کمپنیاں رکھتے ہیں اور نہ ہی اپنے اثاثے نام پر رکھتے ہیں۔

وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ میں قوم کے علم میں یہ لانا چاہتا ہوں کہ مختلف ادوار میں اتفاق فاؤنڈریز کی مکمل تباہی کے لئے بار بار کے حملوں کے باوجود میرے خاندان نے واجب الادا قرضوں کی ایک ایک پائی ادا کی جس کی مالیت تقریباً پونے چھ ارب روپے بنتی ہے۔ ہمارے خاندان نے اصل زر یا مارک اپ کا ایک پیسہ بھی کبھی معاف نہیں کروایا، یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ہم نے وہ قرض بھی اتارے جو ہم پر واجب ہی نہیں تھے اور اس سارے پس منظر کے باوجود کہ ہمیں جیلوں میں ڈالا گیا، ملک سے باہر بھیجا گیا اور ہمارے کاروبار کو روک دیا گیا، فیکٹریوں کو تالے لگا دیئے گئے، گھر چھین لئے گئے، اس کے باوجود ہم نے ایک پائی کا بھی ڈیفالٹ نہیں کیا۔

وزیراعظم نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ ہمارے کاروبار کا یہ سارا پس منظر قوم پر واضح ہو چکا ہوگا۔ میں نے اس سفر کے تمام اہم مراحل سے قوم کو آگاہ کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت سے باہر یا حکومت کے اندر ہوتے ہوئے میں یا میرے خاندان کے کسی فرد نے قومی امانت میں رتی بھر خیانت نہیں کی اور کبھی اقتدار کو کاروبار سے منسلک نہیں کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ میں نے وطن عزیز کو اندھیروں سے پاک کرنے اور تعمیر و ترقی کی نئی بلندیوں کی طرف لے جانے کا عہد کر رکھا ہے، میری تمام تر توجہ اس عہد پر مرکوز ہے۔

میرے پاس اتنا وقت نہیں کہ ہر روز گھسے پٹے الزامات کی یلغار کرنے والوں کو جواب دوں اور وضاحتیں پیش کروں۔ میں الزامات کی تازہ لہر کے مقاصد خوب سمجھتا ہوں لیکن اپنی توانائیاں اس کی نذر نہیں کرنا چاہتا۔ میرے پاس رفقاء کا مشورہ تھا چونکہ میری ذات پر کوئی الزام نہیں ہے اور میرے دونوں بیٹے اپنے معاملات کے خود نگہبان ہیں اس لئے مجھے اس معاملہ سے الگ رہنا چاہئے۔

بعض رفقاء کا خیال تھا کہ میرے خطاب سے اس معاملے کو غیر ضروری اہمیت حاصل ہو جائے گی، کچھ رفقاء کا کہنا تھا کہ میری ذات یا میرے خاندان کے کسی فرد پر کوئی الزام نہیں لگا اس لئے مجھے اس معاملہ میں پڑنے کی ضرورت نہیں لیکن میں چاہتا ہوں کہ اصل حقائق پوری طرح قوم کے سامنے آ جائیں اور الزامات کی اصل حقیقت سے آگاہ ہو جائے۔ وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ میں نے معاملہ کی تحقیقات کے لئے اعلیٰ سطحی عدالتی کمیشن قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج اس کمیشن کے سربراہ ہوں گے، یہ کمیشن حتمی تحقیقات کے بعد فیصلہ دے گا کہ اصل حقیقت کیا ہے اور الزامات میں کتنا وزن ہے، میں الزامات اور روز تماشا لگانے والوں سے کہتا ہوں کہ وہ اس کمیشن کے پاس جائیں اور اپنے الزامات ثابت کریں۔