پانامہ پیپرز کے نام سے دستاویزات لیک ، عالمی رہنماوں‌سمیت سیاستدانوں کے اثاثے چھپانے کے راز افشاں، نیوزی لینڈ، آسٹریلیا، فرانس نےتحقیقات شروع کر دیں

منگل 5 اپریل 2016 10:10

برطانیہ (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔5اپریل۔2016ء): پانامہ لیکس نے عالمی رہنماؤں سمیت مشہور سیاستدانوں کے کالے دھن کو چھپانے اور ان کے مالی معاملات سے متعلق تمام باتیں عیاں کر دی ہیں۔ تفصیلات کے مطابق پانامہ کی ایک لاء فرم موساک فونسیکا سے پانامہ پیپرز کے نام سے لاکھوں دستاویزات انٹرنیٹ پر لیک ہوئیں جب کی تعدادایک کروڑ دس لاکھ ہے ۔پانامہ پیپرز کی نہایت خفیہ دستاویزات سے پاکستان سمیت دنیا کی کئی طاقتور اور سیاسی شخصیات کے مالی معاملات عیاں ہو گئے ہیں جن میں روس کے ولادمیر پوٹن، سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان بند عبدالعزیز، آئس لینڈ کے وزیر اعظم ، یوکرین کے صدر اور پاکستان کے شریف خاندان سمیت کئی ممالک کے سربراہان اور سیاسی رہنماؤں کے نام سر فہرست ہیں ، علاوہ ازیں ان پیپرز میں دنیا بھر کےامیر ترین افراد کا نام بھی شامل ہے۔

(جاری ہے)

پاور پلیئرز کے عنوان سے جاری فہرست میں شریف خاندان کے تین افراد سمیت برطانیہ، آذربائیجان، روس، ملائشیا، اور چین سمیت مصر کےسربراہان کانام بھی سامنے آیا ہے۔ یہ ریکارڈ جرمن اخبار نے اپنے ایک گمنام ذریعہ سے حاصل کیا جس کے بعد اسے جس کے بعد اسے عالمی انوسٹی گیٹو صحافیوں کی جانب سے مشترکہ طور پر گارڈین اور بی بی سی کے ساتھ شئیر کیا گیا۔

پانامہ پیپرز میں ڈکٹیٹرز سمیت 72 حالیہ اور موجودہ سربراہانِ مملکت کا ذکر کیا گیا ہے۔ اگرچہ غیر ملکی آف شور کمپنیوں کا استعمال کچھ غلط نہیں ہے لیکن ان فائلز نے ٹیکس سے متعلق کچھ سوالات کو جنم دے دیا ہے، ان انکشافات کے بعد فوری طور پر اس سسٹم کی اصلاحات کی ضرورت پیدا ہو گئی ہے جن کے بارے میں ناقدین کا کہنا ہے کہ وہ پراسرار ہے۔دستاویزات میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر کے چوٹی کے امیر اور طاقتور افراد کیسے ٹیکس چوری کرتے ہیں جن میں کئی ملکوں کے سربراہانِ حکومت اور سیاسی رہنما شامل ہیں۔

یہ دستاویزات پاناما کی ایک لا فرم موساک فونسیکا سے افشا ہوئیں اور ان کی تعداد ایک کروڑ دس لاکھ ہے۔رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ غیر ملکی کمپنیاں رکھنے والوں میں پاکستانی سیاست دان ، کاروباری شخصیات ، بینکرز ، حاضر سروس اور ریٹائرڈ جج بھی شامل ہیں۔ میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کی ملکیت میں براہ راست کوئی کمپنی نہیں ،تاہم ان کے بچوں کے نام آف شورکمپنیاں اور اکاﺅنٹس موجود ہیں جن کے بارے میں وزیراعظم نوازشریف کے صاحبزادے حسین نوازایک انٹرویو میں اعتراف کرچکے ہیں کہ انہوں نے آف شور کمپنیاں “محنت کی کمائی“ سے بنائی ہیں اور لندن میں موجود آف شورکمپنیوںاور جائیدادوں میں ان کی ہمیشرہ مریم نوازشراکت دار ہیں پاکستان کے حوالے سے رپورٹ میں شریف خاندان کا نام سر فہرست میں ہے۔

رپورٹ کے مطابق حسین نواز ، حسن نواز ، اور شہباز شریف کے رشتہ داروں کے نام پر8 کمپنیاں ہیںلیکن وزیر اعظم نواز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی براہ راست ملکیت میں کوئی کمپنی نہیں۔ آف شور کمپنیوں کے دیگر پاکستانی مالکان میں بے نظیر بھٹو ، جاوید پاشا ، رحمان ملک ، سینیٹر عثمان سیف اللہ اینڈ فیملی ، چودھری برادران کے رشتہ دار وسیم گلزار ، حج سکینڈل کے شریک ملزم زین سکھیرا بھی شامل ہیں۔

غیر ملکی کمپنیاں بنانے والوں میں پاکستان کی کئی اہم کارروباری شخصیات کے نام بھی شامل ہیں۔اس فہرست میں بارایسوسی ایشن کے ارکان ایک حاضر سروس جج اور ریٹائرڈ جج ملک قیوم کے نام بھی درج ہیں۔ پاکستانی شخصیات میں سب سے زیادہ آف شور کمپنیاں سیف اللہ خاندان کی ہیں۔کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ 40 برسوں سے بے داغ طریقے کام کر رہی ہے اور اس پر کبھی کسی غلط کام میں ملوث ہونے کا الزام نہیں لگا۔

دستاویزات میں دنیا کے 72 حالیہ یا سابقہ سربراہانِ مملکت، بشمول آمروں، کا ذکر کیا گیا ہے، جن پر اپنے ملکوں کی دولت لوٹنے کا الزام ہے۔پاناما پیپرز، جس کی بنیاد پر یہ انکشاف ہوا ہے، اس نے ’پاور پلیئرز‘ کے عنوان کے تحت دنیا کے کئی اہم لوگوں کی فہرست دی ہے، اور اس فہرست میں نواز شریف کے تین بچوں کا بھی ذکر ہے۔آئی سی آئی جے کے ڈائریکٹر جیرارڈ رائل کہتے ہیں کہ یہ دستاویزات پچھلے 40 برسوں میں موساک فونسیکا کی روزمرہ کی سرگرمیوں کا احاطہ کرتی ہیں۔

انھوں نے کہامیرے خیال سے یہ انکشافات ’آف شور‘ دنیا کو پہنچنے والا سب سے بڑا صدمہ ثابت ہوں گے۔اس ڈیٹا میں ان خفیہ آف شور کمپنیوں کا ذکر ہے جن کے مصر کے سابق صدر حسنی مبارک، لیبیا کے سابق رہنما معمر قذافی اور شام کے صدر بشار الاسد کے خاندانوں اور ساتھیوں کے ساتھ روابط ہیں۔اس کے علاوہ اس میں ایک ارب ڈالر پر مشتمل کالا دھن سفید کرنے والے ایک گروہ کا بھی ذکر ہے جسے ایک روسی بینک چلاتا ہے اور جس کے روسی صدر ولادی میر پوتن کے قریبی ساتھیوں کے ساتھ روابط ہیں۔

دولت کی ترسیل آف شور کمپنیوں کے ذریعے کی جاتی تھی، جن میں سے دو کے سرکاری طور پر مالک روسی صدر کے قریبی دوست تھے۔موسیقار سرگے رولدوگن لڑکپن سے روسی صدر کے ساتھی ہیں اور وہ پوتن کی بیٹی ماریا کے سرپرست (گاڈ فادر) بھی ہیں۔کاغذوں میں رولدوگن نے مشتبہ سودوں میں کروڑوں ڈالر کمائے ہیں۔ لیکن ان کی کمپنیوں کی دستاویزات کے مطابق: ’یہ کمپنی ایک پردہ ہے جس کے قیام کا مقصد اس کے اصل مالک کی شناخت چھپانا ہے۔

موساک فونسیکا کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ ہر ممکن احتیاط سے کام کرتی ہے اور اگر اس کی خدمات کا غلط استعمال ہوا ہے تو اسے اس پر افسوس ہے۔اگر ہمیں کسی مشکوک سرگرمی یا بدمعاملگی کا پتہ چلا تو ہم فوراً اسے حکام کے علم میں لاتے ہیں۔ اسی طرح جب حکام ہمارے پاس کسی قسم کی بدمعاملگی کے شواہد لاتے ہیں تو ہم ہمیشہ ان کے ساتھ بھرپور تعاون کرتے ہیں۔

موساک فونسیکا کا کہنا ہے کہ آف شور کمپنیاں دنیا بھر میں پائی جاتی ہیں اور انھیں کئی جائز مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔موزیک فانسیکا کے نجی ڈیٹا بیس سے 2.6 ٹیرا بائٹس پر مشتمل عام ہونے والی اس معلوما ت کو امریکی سفارتی مراسلوں سے بھی بڑا قرار دیا جا رہا ہے۔پاناما پیپرز کی جانب سے International Consortium of Investigative Journalists کی ویب سائٹ پر جاری ہونے والے اس ڈیٹا میں وزیر اعظم نواز شریف کے اہل خانہ کی آف شور ہولڈنگز کا ذکر بھی موجود ہے۔

ویب سائٹ پر موجود ڈیٹا کے مطابق،وزیر اعظم کے بچوں مریم، حسن اور حسین ’کئی کمپنیوں کے مالکان یا پھر ان کی رقوم کی منتقلی کے مجاز تھے‘ڈیٹا میں مریم کو برٹش ورجن آئس لینڈ میں موجود نیلسن انٹرپرائزز لمیٹڈ اور نیسکول لمیٹڈ کا مالک ظاہر کیا گیا ہے۔آئی ایس آئی جے کی جاری دستاویزات میں نیلسن انٹرپرائزز کا پتہ جدہ میں سرور پیلس بتایا گیا۔

جون، 2012 کی ایک دستاویز میں مریم صفدر کو ’ beneficial owner‘ قرار دیا گیا ہے۔آئی سی آئی جے کے مطابق، حسین اور مریم نے لندن میں اپنی جائیداد گروی رکھتے ہوئے نیسکول اور دوسری کمپنی کیلئے Deutsche Bank Geneva سے 13.8 ملین ڈالرز قرض حاصل کرنے سے متعلق جون، 2007 میں ایک دستاویز پر دستخط کیے تھے۔بعد میں جولائی، 2014 میں دونوں کمپنیاں ایک اور ایجنٹ کو منتقل کر دی گئیں۔

اسی طرح حسن نواز شریف کو برٹش ورجن آئس لینڈز میں ہینگون پراپرٹی ہولڈنگز کا ’واحد ڈائریکٹر ‘ ظاہر کیا گیا ہے۔ہینگون نے اگست، 2007 میں لائبیریا میں واقع کیسکون ہولڈنگز اسٹیبلشمنٹ لمیٹڈ کو 11.2 ملین ڈالرز میں خرید لیا تھا۔امید کی جا رہی ہے کہ ٓائندہ دنوں میں اس ڈیٹا سے مزید اہم معلومات سامنے آئیں گی۔دوسری جانب پانامہ لیکس میں دنیا بھر کے امیر ترین اور با اثر شخصیات کے مالی معاملات سے پردہ اٹھنے کے بعد عالمی رہنماؤں اور سیاستدانوں میں ایک ہلچل مچ گئی ہے۔

لیک ہوئی فائلز میں پانامہ پیپرز کی نہایت خفیہ دستاویزات سے پاکستان سمیت دنیا کی کئی طاقتور اور سیاسی شخصیات کے مالی معاملات عیاں ہو گئے ہیں۔ خبر ایجنسی کے مطابق پانامہ پیپر کی لیک ہوئی دستاویزات کے بعد نیوزی لینڈ اور آسٹریلوی حکام نے اس معاملے کی تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔ آسٹریلوی حکام کا کہنا ہے کہ موساک فونیسکا سے منسلک آٹھ سو سے زائد افراد کے خلاف تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔

ادھر فرانس میں پانامہ لیکس کی روشنی میں تحقیقات کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق پانامہ لیکس میں دنیا بھر کے بااثر شخصیات اور سیاستدانوں سمیت عالمی رہنماؤں کے اثاثے اور کالے دھن عیاں ہونے کے بعد ایک ہلچل پیدا ہو گئی ہے۔ جس کے پیش نظر فرانس نے ان انکشافات کی روشنی میں تحقیقات کا اعلان کیا ہے۔فرانسیسی صدر اولاندا کا کہنا ہے کہ پانامہ پیپر کے انکشافات سے ٹیکس چوروں کو پکڑنے میں مدد ملے گی۔ فرانسیسی صدر نے کہا کہ پانامہ پیپر کی جانب سے کیے گئے انکشافات کی روشنی میں ٹیکس چوروں کے خلاف تحقیقات کر کے مقدمات چلائے جائیں گے۔

متعلقہ عنوان :