سانحہ ماڈل ٹاؤن: ایس پیز ندیم معروف صفدر واہلہ نے فائرنگ کا حکم دیا،استغاثہ کے مزید دو گواہوں محمد علی اور اکرام اللہ نے بیان قلمبند کروا دیا،26 مارچ کو مزید گواہ پیش ہونگے،رائے بشیر احمد ایڈووکیٹ ،نعیم الدین چودھری ،مستغیث جواد حامد،سانحہ ماڈل ٹاؤن میں ظلم ہوا، انصاف کیلئے قانونی راستہ اختیار کیا،میجر(ر) محمد سعید کی میڈیا سے گفتگو

ہفتہ 26 مارچ 2016 09:42

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔ 26مارچ۔2016ء )سانحہ ماڈل ٹاؤن استغاثہ کیس کے حوالے سے منہاج القرآن کے مزید دو عینی شاہد زخمی گواہوں محمد علی اور اکرام اللہ نے انسداد دہشتگردی کی عدالت کے جج خواجہ ظفر اقبال کے روبرو اپنا بیان قلمبند کروایا۔ گواہان نے بتایا کہ منہاج القرآن کے مرکزی گیٹ کے سامنے گراؤنڈ میں ایس پی ندیم اور ایس پی معروف صفدر واہلہ اور ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائش گاہ کے باہر ایس پی سکیورٹی سلیمان کے حکم پر کانسٹیبلوں ،گن مینوں اور فلائنگ سکواڈ کے مسلح اہلکاروں نے عوامی تحریک کے پرامن کارکنان پر فائرنگ اور لاٹھی چارج کا حکم دیا، ایس پی ندیم کارکنوں کے سروں پر ڈنڈے مارتے رہے ۔

عینی شاہد اکرام اللہ نے انسداد دہشتگردی کی عدالت کے جج خواجہ ظفر اقبال کو اپنے پیٹ پر لگنے والی گولیوں کے زخم بھی دکھائے اور بتایا کہ اب تک میرے پانچ آپریشن ہو چکے ہیں اور علاج جاری ہے کیونکہ گولی میرے پیٹ سے آر پار ہو گئی تھی، جب طالب علم زخمی گواہ محمد علی اپنے اوپر ہونے والے تشدد کی روداد قلمبند کروارہا تھا تو عدالت میں سناٹا چھا گیا ،وہاں پر موجود قیدی بھی آبدیدہ نظر آئے۔

(جاری ہے)

محمد علی نے بتایا کہ تشدد کرتے ہوئے پولیس اہلکار مجھے اغواء کر کے نامعلوم مقام پر لے گئے، وہاں بھی مجھ پر بہیمانہ تشدد کیا گیا۔موقع کے گواہ اور زخمی اکرام اللہ نے اپنا بیان قلمبند کرواتے ہوئے کہا کہ میں سربراہ عوامی تحریک ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی رہائش گاہ کے باہر موجود تھا کہ وہاں پر 301 ماڈل ٹاؤن ایم بلاک کے سامنے ایس پی سکیورٹی سلیمان علی خان فلائنگ سکواڈ اور گن مینوں کے ہمراہ کھڑا تھا اور کارکن محاصر ے کے خلاف نعرے لگارہے تھے اسی اثناء ایس پی سلیمان علی خان نے فلائنگ سکواڈ اور اپنے گن مینوں کو فائرنگ کا حکم دیا۔

کانسٹیبل ایس ایم جی گنوں سے مسلح تھے اور ان کی ٹارگیٹڈ فائرنگ سے درجنوں کارکن زخمی ہو کر گرپڑے، اس دوران کانسٹیبلوں اور گن مینوں کی طرف سے لاٹھی چارج بھی کیا جاتا رہا اور کارکنوں پر ڈنڈوں، ٹھڈوں سے تشدد کیا گیا۔گواہان نے بتایا مذکورہ دونوں ایس پیز منہاج القرآن گراؤنڈ میں للکارے مارتے رہے کہ ان کو پکڑ لیں اور مار دیں اور ان کو ایسا سبق سکھائیں کہ یہ یاد رکھیں۔

اس کے ساتھ ساتھ وہ خود بھی بھاگتے ہوئے کارکنوں کے سروں پر ڈنڈے مارتے رہے،اکرام اللہ نے کہا کہ میری آنکھوں کے سامنے کانسٹیبل طیب طارق نے معراج دین پر فائرنگ کی اورکانسٹیبل احسن عابد کا فائر محمد ارسلان کی بائیں ٹانگ پر لگا اور دلاور کانسٹیبل کا فائر مجھے لگااور گولی میرے پیٹ سے آر پار ہو گئی۔استغاثہ کے مزید گواہان آج 26 مارچ کو اپنا بیان قلمبند کروائیں گے۔

عدالتی کارروائی کے بعد پاکستان عوامی تحریک کے چیف آرگنائزر میجر(ر) محمد سعید ، رائے محمد بشیر ایڈووکیٹ، مستغیث جواد حامد، نعیم الدین چوھری ایڈووکیٹ، مرکزی سیکرٹری اطلاعات نوراللہ صدیقی،سردار غضنفر حسین خان ایڈووکیٹ، چودھری محمد شکیل ممکاایڈووکیٹ،چودھری محبوب حسین ایڈووکیٹ، فرزند علی مشہدی ایڈووکیٹ نے عدالت کے احاطے کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی تاریخ کے اس بدترین ظلم کے خلاف موقع کے عینی شاہدین عدالت کو حقائق بتارہے ہیں اور مزید گواہ بھی پیش کیے جائینگے،ہم نے انصاف کیلئے قانونی راستہ اختیار کیا ہے اور امید رکھتے ہیں کہ ان ٹھوس شہادتوں کی بناء پر سانحہ ماڈل ٹاؤن کے تمام کردار اپنے انجام کو پہنچیں گے۔

متعلقہ عنوان :