حکومتی اور اپوزیشن اراکین تنخواہ کے معاملے پر ایکا،تنخواہ سپریم کورٹ کے ججوں کے برابر کی جائے ، جمشید دستی کی تجویز پر ایوان خوش ،میری تنخواہ 17 ہزار ،الاؤنسز ملا کر 70 ہزار بنتے ہیں،لاجز کرایہ ،بجلی ،گیس اور بچوں کے سکولوں کی فیسیں اتنی زیادہ ہیں گزارا نہیں ہوتا ،مولانا میر زمان

جمعہ 18 مارچ 2016 08:54

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔ 18مارچ۔2016ء) قومی اسمبلی میں حکومتی اور اپوزیشن اراکین اپنی تنخواہ کے معاملے پر پھٹ پڑے‘ جبکہ ایوان میں ایم این اے کی تنخواہ سپریم کورٹ کے ججوں کے برابر کرنے یا بلوچستان کے صوبائی اسمبلی کے برابر کرنے کی تجویز دی گئی‘ جبکہ سپیکر قومی اسمبلی نے کہا ہے کہ سیکرٹری کی تنخواہ مجھ سے چار گنا زیادہ ہے‘ بینک قرضے اور کریڈٹ کارڈ ہی اراکین کو دیتے ہیں۔

جمعرات کو قومی اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران شاہدہ رحمانی کے سوال کے جواب میں پارلیمانی سیکرٹری خزانہ رانا محمد افضل نے بتایا کہ اراکین کی تنخواہیں کم ہیں اگر اسپیکر ہدایت دیں تو اس میں اضافے کے لئے تیار ہیں۔ سپیکر نے کہا کہ اگر وزارت خزانہ قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کو دیں تو میں کر سکتا ہوں تاہم یہ آپ ہی نے کرنا ہے۔

(جاری ہے)

مولانا میر زمان نے کہا کہ میری تنخواہ 17 ہزار روپے ہے اور تمام الاؤنسز ملا کر 60 سے ستر ہزار روپے بنتی ہے۔

10 ہزار پارلیمنٹ لاجز میں کرایہ ہے 10 ہزار بجلی گیس کا بل ہے بچوں کے سکول کی فیس کھانے پینے سمیت دیگر اخراجات اس سے پورے ہونے مشکل ہیں۔ کم از کم تنخواہ صوبائی اراکین بلوچستان اسمبلی کے برابر کی جائے ہم سے تو گریڈ 16 کے ملازم زیادہ تنخواہ لیتے ہیں۔ پارلیمانی سیکرٹری خزانہ نے کہا کہ اگر ہاؤس کا اتفاق رائے ہے تو اسپیکر احکامات دیں۔سپیکر نے کہا کہ ہاؤس کا اتفاق رائے ہے اس لئے کم از کم صوبوں کے برابر اس کو کر دیا جائے۔

آفتاب شیر پاؤ نے کہا کہ وزیر خزانہ نے اس حوالے سے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا۔ گریڈ 16 کی تنخواہ ہم سے زیادہ ہے اسپیکر نے کہا میرا سیکرٹری مجھ سے چار گنا زیادہ تنخواہ لیتا ہے۔ صوبائی اراکین قومی اسمبلی کے اراکین کی تنخواہ زیادہ ہونی چاہئے۔ جمشید دستی نے کہا کہ ان کے پاس اپنا گھر نہیں وہ بس پر بیٹھ کر آتے ہیں۔ 70 ہزار میں گزارا نہیں ہوتا کم سے کم سپریم کورٹ کے جج کے برابر تنخواہ ہونی چاہئے۔ اس پر اراکین نے بھرپور ڈیسک بجا کر تائید کی۔