نوازشریف کا لبرل ازم کانعرہ قابل تعریف ہے ، وہ سمجھتے ہیں کہ بین الاقومی برادری کو ایک ترقی پسند پاکستان کی ضرورت ہے، موجودہ وزیراعظم پاکستان کو آگے لے جانے کیلئے جدوجہد کررہے ہیں،انکی سو چ ہے کہ ایک اعتدال پسند ،ترقی پسند یا لبرل ایجنڈا ان کے اقتصادی ایجنڈے میں مدد گار ثابت ہوسکتاہے ،نوازشریف کی موجودہ سیاست 90 کی دہائی کی سیاست سے مختلف ہے،معروف امریکی اخبار”واشنگٹن پوسٹ“ کی پاکستان کی اقتصادی ومعاشی ترقی اور نوازشریف کے لبرل اور ترقی پسندانہ وژن بارے رپورٹ

جمعہ 11 مارچ 2016 10:25

واشنگٹن (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔ 11مارچ۔2016ء )معروف امریکی اخبار”واشنگٹن پوسٹ“ نے وزیراعظم نوازشریف کے لبرل ازم کے ایجنڈے کو قابل تعریف قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ نوازشریف اس بات کو سمجھتے ہیں کہ بین الاقومی برادری کو ایک ترقی پسند پاکستان کی ضرورت ہے وہ پاکستان کو آگے لے جانے کیلئے جدوجہد کررہے ہیں،انکی سو چ ہے کہ ایک اعتدال پسند ،ترقی پسند یا لبرل ایجنڈا ان کے اقتصادی ایجنڈے میں مدد گار ثابت ہوسکتاہے ،نوازشریف کی موجودہ سیاست 90 کی دہائی کی سیاست سے مختلف اور اعتدال پسند انہ ہے۔

جمعرات کو امریکی اخبار”واشنگٹن پوسٹ“ میں پاکستان کی اقتصادی ومعاشی ترقی اور نوازشریف کے لبرل اور ترقی پسندانہ وژن کے حوالے سے شائع ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نوازشریف نے ملک کو ترقی کی پٹری پر ڈال دیا ہے ۔

(جاری ہے)

رپورٹ میں اعلی سرکاری عہدیداروں اور تجزیہ کاروں کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ وزیراعظم نواشریف نے گزشتہ سال نومبرمیں بین الاقوامی کاروباری رہنماوٴں سے خطاب کے دوران ایک نئے اور زیادہ لبرل پاکستان کا نعرہ لگا کر ملک کی طاقتور مذہبی برادری کوورطہ حیرت میں ڈال دیا ۔

نوازشریف کے لہجے میں تبدیلی انکے معاشی ایجنڈے اور 42سالہ بیٹی مریم نواز کے اپنے والد پر اثرورسوخ کا پتہ دیتی ہے ۔وزیراعظم کے ایک قریبی اعلیٰ سرکاری عہدیدار نے شناخت ظاہر نہ کرنے پر بتایا ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ بین الاقومی برادری کو ایک ترقی پسند پاکستان کی ضرورت ہے ۔اگر وہ سوچتے ہیں کہ ایک اعتدال پسند ،ترقی پسند یا لبرل ایجنڈا ان کے اقتصادی ایجنڈے میں مدد کر سکتا ہے تو انھیں اس کو جاری رکھاچاہیے ۔

دیہی ووٹروں اورمذہبی کمیونٹی کی مضبوط حمایت کے ساتھ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی انتخابات میں فیصلہ کن اکثریت حاصل کرنے کے بعد نوازشریف 2013میں وزیراعظم بن کر سامنے آئے ۔رپورٹ کے مطابق نوازشریف 90کی دہائی میں دو مرتبہ وزیراعظم رہ چکے ہیں اور وہ اس دوران تنگ نظر اور غیر متاثر کن اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ چلتے رہے ۔رپورٹ کے مطابق ایسے شخص کے انتخاب کے بعد واضح طور پر یہ کہا جارہا تھاکہ اب پاکستان ایک باسی گورننس کے دور میں داخل ہورہا ہے ۔

66 سالہ نوازشریف اور انکی جماعت کے اراکان پارلیمنٹ اب مذہبی براداری کو چیلنج کررہے ہیں اور اپنی پارٹی کیلئے ایک نیا راستہ تلاش کررہے ہیں اور اس نشست کو للکار رہے ہیں جہاں مذہبی جماعتوں کے حامی لاکھوں کارکن موجود ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نواز شریف کے مذہبی قدامت پسندوں کے ساتھ تعلقات کے اس وقت بگڑنا شروع ہوگئے جب حکومت اور فوج نے واضح طور پر مساجد کو اپنے خطبات کو دائرے میں لینے کے نوٹسز جاری کیے۔

جنوری میں نواز شریف حکومت نے یوٹیوب پر عائد وہ تین سالہ پابندی اٹھا لی جو مذہبی جماعتوں کے مطالبات پر توہین آمیز مواد شائع کرنے پر عائد کی گئی تھی ۔ایک ماہ بعد(ن) لیگی رکن قومی اسمبلی ماروی میمن نے شادی کی عمر کم سے کم 16 سے 18 سال مقرر کرنے کی حد اور بچپن کی شادی پر پابندی کا بل متعارف کرایا ۔ اسلامی نظریاتی کونسل ایک بااثر کمیٹی نے قانون سازی کا جائزہ لیا اور اسے اسلامی قوانین کے خلاف قرار دیا جس پر ماروی میمن نے بل واپس لے لیا تاہم کہاکہ انکی پارٹی اس حوالے سے ترامیم کے ساتھ بل پیش کرنے کا ارادہ رکھتی ہے ۔