غیرقانونی بھرتیاں، فنڈز کا ناجائز استعمال،داغدار سروس ریکارڈ،فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش،آئی جی سندھ کا جسٹس امیر ہانی مسلم پر عدم اعتماد، اللہ کے سامنے جوابدہ ہوں، میرا ضمیر مطمئن ہے۔ جب محسوس کروں گا کہ انصاف نہیں کرسکتا تو کیس سے علیحدہ ہوجاوٴں گا، جسٹس امیر ہانی مسلم،سندھ ریزرو پولیس کی 794 اسامی پر 993 اہلکاروں کو بھرتی کیا گیا، 2013 اور 2014 میں صوبہ سندھ میں 12 ہزار بھرتیاں کی گئیں، سپریم کورٹ کے حکم کے بعد بھی پولیس میں سیاسی بنیادوں پر بھرتیاں جاری ہیں، یہی وجہ ہے کہ رینجرز نے پولیس کو چارج شیٹ کیا، جسٹس خلجی عارف

جمعہ 11 مارچ 2016 10:16

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔ 11مارچ۔2016ء)سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں آئی جی سندھ غلام حیدر جمالی کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی۔ سماعت کے دوران فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی نے غیرقانونی بھرتیاں، انوسٹی گیشن فنڈز کا ناجائز استعمال اور داغدار سروس ریکارڈ کے الزام سے متعلق رپورٹ پیش کردی۔ آئی جی سندھ نے بنچ کے سربراہ جسٹس امیر ہانی مسلم پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کمیٹی میں شامل افسران کو برادران یوسف قرار دیدیا۔

جس پر جسٹس امیر ہانی مسلم کا کہنا تھا کہ میں اللہ کے سامنے جوابدہ ہوں، میرا ضمیر مطمئن ہے۔ جب محسوس کروں گا کہ انصاف نہیں کرسکتا تو کیس سے علیحدہ ہوجاوٴں گا۔سماعت کے دوران فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی نے اپنی رپورٹ پڑھ کر سنائی۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ سن 2011 اور 2012 میں بڑے پیمانے پر غیرقانونی بھرتیاں کی گئیں۔

(جاری ہے)

سندھ ریزرو پولیس کی 794 اسامی پر 993 اہلکاروں کو بھرتی کیا گیا۔

383 امیدواروں کے قد اور سینے کا سائز ایک تھا۔ سن 2013 اور 2014 میں صوبے میں 12 ہزار بھرتیاں کی گئیں۔جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دیئے کہ تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ چونکا دینے والی ہے۔ عدالت حکم دے گی کہ تحقیقات کے بعد ذمہ داروں کا تعین کیا جائے۔ جسٹس خلجی عارف نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ کے حکم کے بعد بھی پولیس میں سیاسی بنیادوں پر بھرتیاں جاری ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ رینجرز نے پولیس کو چارج شیٹ کیا ہے۔ جب بھرتیاں سیاسی ہوں گی تو انگلیاں بھی اٹھیں گی۔جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ کمیٹی کہتی ہے کہ آئی جی سندھ کو کہا کہ آپ نے غلط کیا جس پر آئی جی سندھ نے کہا کہ غیرقانونی بھرتیوں میں کمیٹی کے ارکان بھی ملوث ہیں۔ رپورٹ میں ان بھرتیوں کا ذکر نہیں کیا گیا۔ آئی جی سندھ نے کہا کہ کمیٹی کے ارکان نے وہی کیا جو برادران یوسف نے کیا تھا۔

جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریماکس دیئے کہ ہمیں مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کو جواب دینا ہے کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں کریں گے۔جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ یہ ملحوظ رہے کہ کمیٹی کو صرف انکوائری کا اختیار ہے وہ مجاز اتھارٹی نہیں ہے۔ یہ کمیٹی اس وقت کے ایڈووکیٹ جنرل سندھ کی تجویز پر تشکیل دی گئی تھی ورنہ ہم معاملہ نیب کو دے رہے تھے۔ جس پر وکیل فاروق ایچ نائیک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آئی جی پولیس رولز کے تحت نہیں آتا یہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے قواعد کے تحت آتا ہے۔

آئی جی پر پولیس رولز نہیں سندھ سروس ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے۔ جس پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ کمیٹی کے پاس آئی جی کو نکالنے یا انکے خلاف محکمہ جاتی کارروائی کا اختیار نہیں تھا۔ جسٹس خلجی عارف نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ یہ بھی ممکن ہے کہ رپورٹ آپکے حق میں آجائے۔سماعت کے دوران پولیس افسر ثناء اللہ عباسی نے کہا کہ انوسٹی گیشن فنڈز کے غلط استعمال پر رپورٹ پڑھ کر سنادی گئی ہے۔

مٹیاری ،کشمور اور مٹھی میں اس رقم کا غلط استعمال ہوا ہے۔ یہ فنڈز بنکس کے ذریعے تقسیم کئے جاتے ہیں تاہم 99 فیصد رقوم کیش میں دی گئیں ہیں۔ جس پر جسٹس عظمت سعید نے استفسار کیا کہ سرکاری فنڈ کیش میں کیسے دیا گیا۔ جس پر ثناء اللہ عباسی نے کہا کہ سال 2014 اور 2015 میں کوئی آسامی نہیں تھی اسکے باوجود بھرتیاں کی گئیں۔ نئی آسامیوں کی منظوری دینا حکومت سندھ کا اختیار ہے۔

سماعت کے دوران آئی جی سندھ کا کہنا تھا کہ میری کمیٹی کے خلاف دو درخواستیں زیر التوا ہیں پہلے انہیں سنا جائے۔ پورے سندھ میں 12 ہزار بھرتیاں ہوئیں باقی بھرتیوں کا کہیں ذکر نہیں ہے۔ حیدرآباد میں 4 سو اور شکارپور میں 3 سو بھرتیاں کی گئی تھیں۔ تمام غیر قانونی افراد کو برخاست کیا گیا۔ جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ آپ یہ بتائیں کہ سال 2013 اور 2014 کی غیر قانونی بھرتیوں پر کیا ایکشن لیا اور کتنی محکمہ جاتی انکوائریاں کروائیں۔ جسٹس خلجی عارف نے کہا کہ ہم نے کراچی بے امنی کے فیصلے میں پولیس سے سیاسی عناصر کو نکالنے کا حکم دیا تھا۔ سیاسی بنیادوں پر بھرتیاں اسکے بعد بھی جاری رہیں۔