این اے 122 جرمانہ کیس،سپریم کورٹ کا الیکشن کمیشن کو نوٹس ،وضاحت طلب،بادی النظر میں ایاز صادق کو جرمانہ عائد نہیں کیا گیا، چیف جسٹس کے دوران کیس ریمارکس، بعض اوقات الیکشن کمیشن کے عملے کی غلطیوں کا خمیازہ ریاست کو بھگتنا پڑتا ہے،جسٹس عمر عطاء بندیال

جمعرات 10 مارچ 2016 10:14

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔ 10مارچ۔2016ء) سپریم کورٹ نے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 122 لاہور میں الیکشن ٹریبونل کی جانب سے لاکھوں روپے کے جرمانے کے معاملے پر الیکشن کمیشن پاکستان کو نوٹس جاری کرتے ہوئے وضاحت طلب کی ہے کہ یہ جرمانہ ایاز صادق پر نہیں کیا گیا ہے تو پھر جرمانے کی ادائیگی کون کرے گا۔ تین رکنی بنچ کے سربراہ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا ہے کہ ایاز صادق کو سپیکر قومی اسمبلی کی حیثیت کا سہارا لے کر بات نہیں کرنی چاہئے۔

اللہ تعالیٰ نے ججز کو قلم کی طاقت دی ہے تو وہ اس کا استعمال سوچ سمجھ کر کریں ۔ ججز کو درخواست کے مطابق ہی فیصلہ دینا چاہئے مسئلہ یہ ہے الیکشن ٹریبونل نے اپنے فیصلے میں واضح نہیں کیا کہ جرمانہ کس پر عائد کیا گیا ہے بادی النظر میں تو یہ جرمانہ ایاز صادق کو نہیں کیا گیا ہے اس کی وضاحت الیکشن کمیشن ہی کر سکتا ہے جبکہ جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا ہے کہ بعض اوقات الیکشن کمیشن کے عملے کی غلطیوں کا خمیازہ ریاست کو بھگتنا پڑتا ہے جرمانوں اور دیگر حوالوں سے سیاسی جماعتوں کو باوقار رویہ اختیار کرنا چاہئے اب تک مدعا علیہ کو جرمانہ ادا کرنا چاہئے تھا ۔

(جاری ہے)

انہوں نے یہ ریمارکس بدھ کے روز دیئے ہیں ۔سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی جانب سے شاہد حامد پیش ہوئے تو چیف جسٹس نے کہا کہ جب ایاز صادق کو ڈی سیٹ کیا گیا تھا تو کیا تازہ انتخابات ہوئے تھے اور پھر کامیابی کے بعد ان کو پھر سے چیلنج کیا گیا ہے شاہد حامد نے کہا کہ جی ہاں دوبارہ ان کی کامیابی کو چیلنج کیا گیا ہے درخواست جو میرے خلاف دائر کی گئی تھی اس میں میرے حلقے میں ہونے والے انتخابات کو خلاف قانون قرار دیا گیا تھا مکمل انتخاب کو ہی چیلنج کیا گیا ۔

اس درخواست پر جرمانہ عائد کیا گیا انتخابات بالکل صحیح ہوئے ۔ تمام تر معاملات واضح ہیں میرے موکل نے کامیابی حاصل کی۔ درخواست میں ان کا ذہن منتشر لگتا ہے الیکشن ٹریبونل کے حوالے سے کہا گیا کہ انہوں نے قواعد و ضوابط کا خیال نہیں رکھا اور تمام تر ریکارڈ کا جائزہ نہیں لیا۔ انہوں نے الیکشن ٹریبونل کا فیصلہ پڑھ کر سنایا ۔ نظریہ ضرورت کی بات کی گئی چیف جسٹس نے کہا کہ جو سوال مخالف فریق نے اٹھایا ہے آپ اس کی تشریح کیوں کر رہے ہیں وہ تو انہوں نے بتایا ہے ۔

شاہد حامد نے کہا کہ میرا موکل سپیکر قومی اسمبلی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ یہ کہہ کر اثر انداز ہو رہے ہیں کہ آپ کے موکل سپیکر قومی اسمبلی ہیں آپ کو اس کا سہارا نہیں لینا چاہئے ۔ وکیل نے کہا کہ وہ کسی طرح سے بھی اثر انداز ہوئے بغیر فیصلہ چاہتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ بات عام ہو گئی ہے آج کل زیادہ سے زیادہ صفحات کے فیصلے لکھے جا رہے ہیں مقابلہ ہو رہا ہے۔

یہ خود نمائی کا کلچر نمایاں ہو رہا ہے اس سے عدلیہ کو نقصان ہو رہا ہے اللہ نے آپ کو اختیار اور قلم دیا ہے تو اس کو دیکھ کر استعمال کریں غیر ضروری چیزیں فیصلے میں لکھنے کی کیا ضرورت ہے ایک 500 صفحات کا فیصلہ کرتا ہے تو دوسرا اڑھائی ہزار صفحات پر مشتمل فیصلہ آ جاتا ہے ججز کو حقائق اور قانون کے تحت ہی فیصلہ کرنا چاہئے۔ ماضی میں بہت کم صفحات کے فیصلے لکھے گئے اور یہ فیصلے موثر بھی تھے اور ان فیصلوں کو تسلیم بھی کیا گیا ۔

ہم نے صرف یہ دیکھنا ہے کہ کیا اکیڈمک ایکسرسائز اس مقدمے میں کی گئی ہے یا نہیں اور جرمانہ کیوں عائد کیا گیا ہے انہوں نے حامد خان سے کہا کہ کیا آپ اس سے اتفاق کرتے ہیں کہ جو آبزرویشن یا بات کی گئی ہے وہ درخواست گزار کے مستقبل پر اثر انداز ہو گی ۔ حامد خان نے کہا کہ ہم نے براہ راست کوئی جرمانہ عائد نہیں کرایا یہ سوالات خود سے کر رہے ہیں اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی اس کی ضرورت ہے ۔

جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ غلطیاں کی گئی ہیں چیف جسٹس نے کہا کہ جتنے والے امیدوار کی طرف سے تو بات نہیں آنی چاہئے تھی یہ تو دوسرا بات کرتا ۔ کس حیثیت سے ان کو جرمانہ کیا گیا اگر عدالت کے کہنے پر کوئی کمیشن مقرر کیا جاتا اور وہ فیصلہ کرتا تو اور بات ہوتی جرمانہ تو ابتدائی طور پر مدعا علیہہ کی جانب سے جمع ہونا چاہئے تھا ۔

عدالت اس نتیجے پر پہنچی کہ یہ سب غلطیاں الیکشن ٹریبونل کی ہیں اور اس کی کمی بیشیاں ہیں تو پھر مدعا علیہہ پر جرمانہ کیوں کیا گیا؟ حامد خان نے کہاکہ یہ انتخاب الیکشن کمیشن کی وجہ سے متاثر ہوا چیف جسٹس نے کہا کہ جرمانہ کی وصولی کا مطلب یہ ہے کہ یہ رقم حامد خان کو واپس کی جائے گی اگر آپ کا کیس زیر التواء ہے اور کہا جائے کہ فیصلہ انصاف پر مبنی ہے تو پھر کیا ہوگا ۔

؟ حامد خان نے کہا کہ کسی کو تو یہ جرمانہ دینا ہے چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت اس طرح کے اکیڈمک بحث میں نہیں پڑنا چاہتی جرمانہ کے لئے الیکشن کمیشن کو ادائیگی کا کہہ دیتے ہیں۔ مدعاعلیہہ اس جرمانے کا ذمہ دار نہیں ہے۔شاہد حامد نے کہا کہ ایاز صادق کو عام انتخابات میں جرمانہ کیا گیا تھا اس جرمانے کو کوئی مستقبل میں بطور سزا کے استعمال کرکے نااہل قرار دلوا سکتا ہے حالانکہ اس جرمانے کی ادائیگی ایاز صادق کو نہیں الیکشن کمیشن کو کرنا تھی ۔

جسٹس عمر عطاء نے کہا کہ بائی الیکشن کے حوالے سے کیا جرمانہ رکھا گیا ہے الیکشن کمیشن آف پاکستان اور ریاست پاکستان اس کا جرمانہ ادا کرے گی ۔ انتخاب لڑنے والی پارٹیاں محض جرمانے کے معاملے کو یہاں نہیں اٹھانا چاہئے ۔سپریم کورٹ کہہ دے گی کہ آئندہ مستقبل میں اس طرح کے کام نہیں کئے جانے چاہئیں۔ لودھراں والے معاملے میں جرمانہ کا ایشوز تھا۔

چیف جسٹس نے ایاز صادق سے کہا کہ آپ بتائیں کہ جرمانہ آپ نے ادا کرنا ہے یہ کہاں لکھا ہے ۔ 19 مدعا علیہان کو کہاں رکھیں گے یہ تو کہیں نہیں لکھا کہ ایاز صادق جرمانہ بھریں گے جرمانے کے ساتھ درخواست خارج کرنے کا مقصد جرمانہ آپ پر نہیں کیا گیا ۔ شاہد حامد نے کہا کہ یہ صرف میں ہی ہوں جس کو یہ جرمانہ ادا کرنا ہے کیونکہ کہا گیا ہے کہ درخواست جرمانے کے ساتھ خارج کی جاتی ہے ۔

جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ میں حامد خان سے کہتا ہوں کہ وہ گریس کا مظاہرہ کریں اور جرمانے والا معاملہ چھوڑیں ۔ حامد خان نے کہا کہ مقدمے میں ابھی تک واضح نہیں ہے کہ کون یہ جرمانہ ادا کرے گا ۔ 20 کروڑ روپے انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق کے لئے نادرا مانگ رہا ہے یہ انصاف کے حصول کے لئے آنے والا کیوں ادا کرے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم جرمانے کی بات آپ کی مان لیتے اگر الیکشن کمیشن کی جانب سے مس مینجمنٹ ہوئی ہے حامد خان نے کہا کہ یہ رقم الیکشن کمیشن کو ادا کرنی چاہئے چیف جسٹس نے کہا کہ یہ ہماری عدالتون کا عام اصول ہے کہ جو عدالت سے رجوع کرتا ہے اگر وہ عدالت کا وقت ضائع کرتا ہے یا کوئی معاملہ ہوتا ہے تو اس کا ذمہ دار وہ خود ہوتا ہے اس کا ذمہ دار کسی اور کو قرار نہیں دیا جا سکتا ۔

سوال یہ ہے کہ اگر ہم کسی نتیجے پر پہنچ جائیں کہ فیصلہ الیکشن کمیشن کے خلاف آیا ہے تو کیا جرمانہ وہی ادا کرے گا ۔الیکشن ٹریبونل کی کمی بیشی کو الیکشن کمیشن کی ذمہ داری کیسے قرار دیں ؟اس بارے بہت کچھ کہا جا سکتا ہے۔ میں قائم مقام چیف الیکشن کمشنر بھی رہا ہوں اس لئے کچھ نہیں کہہ سکتا ۔ یہ سب باتیں میڈیا میں آ جاتی ہیں اس لئے بات نہیں کرنا چاہتا ۔

شاہد حامد نے کہا کہ عمران خان سے رابطہ کیا گیا انہوں نے جواب نہیں دیا۔ حامد خان نے کہا کہ پہلی نادرا رپورٹ ہمارے حق میں اور دوسری رپورٹ ان کے حق میں ہے ۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ہم نے اس بات کا فیصلہ کرناہے کہ جرمانہ کون بھرے گا اس کے لئے ہمیں الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کرنا پڑے گا ۔ فریقین کی اس معاملے میں جب کوئی غلطی نہیں ہے تو پھر یہ جرمانہ آپ کیوں بھریں یہاں نادرا کا ذکر کہاں سے آگیا ۔

شاہد حامد نے کہا کہ موجودہ چیئرمین نادرا کی تعیناتی کو پی ٹی آئی نے بھی منظور کیا چیف جسٹس نے آرڈر لکھوایا کہ این اے 122 میں دوبارہ انتخاب ہوا ایاز صادق دوبارہ کامیاب قرار پائے ۔ درخواست گزار چاہتے ہیں کہ ایک معاملہ جو ان کے خلاف جرمانے کا ہوا ہے وہ واضح کیا جائے اور اس کو ختم کیا جائے ۔اگرچہ الیکشن ٹریبونل کے فیصلہ کا پیرا گراف 13 واضح کرتا ہے کہ ایاز صادق نے جرمانہ ادا نہیں کرنا یہ جرمانہ 23 لاکھ 73 ہزار روپے تھا ۔یہ جرمانہ کیا الیکشن کمیشن ادا کرے گا یا نہیں درخواست گزار کا کہنا ہے کہ یہ جرمانہ ان کی سیاسی زندگی کو متاثر کر سکتا ہے الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کیا جاتا ہے وہ اس معاملے میں وضاحت کرے ۔ سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی ۔