یمنی حکومت اپنی شرائط پر اصرار کررہی ہے، جنگ زیادہ طویل ہو سکتی ہے، روس کا انتباہ، امن مذاکرات کی کامیابی کے بہت کم امکانات پر گہری تشویش ہے،اطلاعات ہیں یمنی حکومت اْس وقت تک جنگ بندی پر آمادہ نہیں جب تک معاملات کا مکمل حل نہیں نکل آتا، اقوام متحدہ میں روسی سفیر ویٹالی چرکن کی صحافیوں سے گفتگو

اتوار 6 مارچ 2016 10:38

نیویارک(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔ 6مارچ۔2016ء)روس نے خبردار کیا ہے کہ یمن میں جاری جنگ ’بہت طویل عرصے‘ تک جاری رہ سکتی ہے، جس کی وجہ یمنی حکومت کی طرف سے جنگ بندی کے لیے اس کی اپنی شرائط پر اصرار ہے۔اقوام متحدہ میں روسی سفیر ویٹالی چْرکن نے سلامتی کونسل کی ایک میٹنگ کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہیں امن مذاکرات کی کامیابی کے بہت کم امکانات پر گہری تشویش ہے اور ہم نے سنا ہے کہ حکومت اْس وقت تک جنگ بندی پر آمادہ نہیں ہے جب تک معاملات کا مکمل حل نہیں نکل آتا۔

“ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ چیز دراصل ایک بہت طویل تنازعے کی طرف اشارہ کرتی ہے جس کے نتائج اور بھی زیادہ ڈرامائی ہو سکتے ہیں۔یمن میں ایران نواز حوثی باغیوں کے خلاف سعودی عرب کی قیادت میں ریاض اور اس کے اتحادی ممالک کی طرف سے فضائی حملوں کا آغاز گزشتہ برس مارچ میں کیا گیا تھا۔

(جاری ہے)

روس کی طرف سے ان حملوں پر مسلسل تنقید کی جاتی ہے۔ اس تنازعے میں اب تک چھ ہزار سے زائد انسان ہلاک ہو چکے ہیں۔

سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کی عسکری کارروائیوں کے باعث ملک کی 80 فیصد آبادی خوراک، ادویات اور دیگر ضروری اشیاء کی شدید قلت کا شکار ہے۔روس نے گزشتہ برس سعودی حمایت یافتہ اْس قرارداد پر اپنا حق رائے دہی تو محفوظ رکھا تھا مگر اسے ویٹو نہیں کیا تھا، جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ حوثی باغیوں کو اْن تمام علاقوں سے نکل جانا چاہیے جو ان کے قبضے میں ہیں۔

چْرکن کے مطابق یہ قرارداد سعودی سربراہی میں قائم عسکری اتحاد کی طرف سے ’جنگی مہم جاری رکھنے کی وجہ کے طور پر استعمال کی جا رہی ہے۔ سعودی عرب کی قیادت میں ریاض اور اس کے اتحادی ممالک کی طرف سے فضائی حملوں کا آغاز گزشتہ برس مارچ میں کیا گیا تھا۔سعودی عرب کی قیادت میں ریاض اور اس کے اتحادی ممالک کی طرف سے فضائی حملوں کا آغاز گزشتہ برس مارچ میں کیا گیا تھا۔

اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے اسماعیل ولد شیخ احمد نے گزشتہ ماہ سکیورٹی کونسل کو بتایا تھا کہ امن مذاکرات کا آغاز رواں ماہ ہو گا۔ اس سلسلے میں مشاورت کا پہلا دور جنوری میں سوئٹزرلینڈ میں منعقد ہو چکا ہے۔ تاہم سفارت کاروں کے مطابق خصوصی نمائندے نے سلامتی کونسل کے نمائندوں کو بند دروازے کے پیچھے دی گئی بریفنگ میں مذاکرات کی کوئی حتمی تاریخ نہیں بتائی تھی۔

یمنی سفارت کار خالد علی ایمنی کے مطابق ان کی حکومت مذاکرات میں شمولیت کے لیے تیار ہے تاہم انہوں نے یمنی باغیوں پر الزام عائد کیا کہ وہ اعتماد کی بحالی کے لیے طے شدہ اقدامات کے مطابق اپنے زیر حراست افراد کو رہا نہیں کر رہے۔ علی ایمنی نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ حوثی باغی امدادی سامان لے جانے والے قافلوں کے راستے روک رہے ہیں اور امدادی سامان لوٹ رہے ہیں۔

مزید یہ کہ لْوٹا گیا سامان بلیک مارکیٹ میں فروخت ہو رہا ہے۔ اس یمنی سفارت کار کا مزید کہنا تھا، ”باغی ملیشیا جنگی مجرموں کی طرح سرگرم ہے۔ وہ اپنے زیر قبضہ ہر صوبے میں بھوک کو میرے لوگوں کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔رواں ماہ کے لیے سلامتی کونسل کے صدر ملک انگولا کے سفارت کار اسماعیل گاسپار مارٹنز نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یمن میں جاری جارحانہ کارروائیوں کا فوری طور پر روکا جانا لازمی ہے۔