پاکستان میں عدالتی نظام خراب نہیں ،عملدرآمد میں فقدان پایا جاتا ہے،جسٹس انور ظہیر جمالی،تنازعات کے حل کیلئے متبادل طریقوں کو اپنانے سے پہلے عوام کو آگاہی دینی ہو گی،چیف جسٹس سپریم کورٹ کا مصالحتی سیمینار سے خطاب

اتوار 6 مارچ 2016 10:41

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔ 6مارچ۔2016ء ) چیف جسٹس پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا ہے کہ پاکستان میں عدالتی نظام خراب نہیں ہے بلکہ اس پر عملدرآمد میں فقدان پایا جاتا ہے۔تنازعات کے حل کے لئے متبادل طریقوں کو اپنانے سے پہلے عوام کو آگاہی دینی ہو گی۔ ان خیالات کا اظہار چیف جسٹس پاکستان نے نیشنل سینٹر فار ڈسپیوٹ ریزولوشن کے تحت نجی ہوٹل میں منعقدہ پاکستان کے پہلے مصالحتی سیمینار سے بحیثیت مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کیا۔

سیمینار سے صدر این سی ڈی آر جسٹس ریٹائرڈ سعیدالزماں صدیقی، نائب صدر انور منصور خان، سی او او ابراہیم سیف الدین، رہنما ایم کیو ایم فاروق ستار، رہنما پاکستان تحریک انصاف عارف علوی اور غیر ملکی ماہرین نے بھی خطاب کیا۔ تقریب میں قائم مقام چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس احمد علی شیخ، ڈائریکٹر جنرل رینجرز سندھ میجر بلال اکبر، سینئر وزیر تعلیم نثار کھوڑو، پی ایم ایل ایف کے رہنما جام مدد علی، گورنر اسٹیٹ بینک اور دیگر شخصیات بھی موجود تھیں۔

(جاری ہے)

چیف جسٹس پاکستان انور ظہیر جمالی نے کہا کہ معتبر ادارے نہ ہونے کی وجہ سے عدالتی نظام انصاف کی فراہمی میں کردار ادا نہیں کر سکتا، اس طرح مقدمات جمع ہوتے جاتے ہیں۔ جج حضرات، پولیس، وکلاء اور دیگر افراد کو مصالحت کے لئے تربیت دی جائے، اس کے لئے این سی ڈی آر کی تحقیق اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ انصاف کے حصول کے متبادل نظام کے لئے ضروری ہے کہ میڈیا سمیت مقتدر ادارے مثبت کردار ادا کریں۔

قانون کو عملی جامہ پہنانے والوں میں خرابی ہے، نظام عدل میں نہیں، آج ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں خوف خدا کافقدان ہے، ہمارے معاشرے میں مقدمہ بازی کو نمٹانے کے بجائے فروغ دیا جاتا ہے۔ جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ موجودہ عدالتی نظام پرتنقید بے جاہے، اس وقت ملک میں مکمل آزاد عدلیہ کام کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ لوگ اپنی مادری زبان میں بات کرنے میں شرمندگی محسوس کرتے ہیں، ایسے معاشرے میں مذاکرات، مفاہمت یا مصالحتی اصطلاح کا استعمال بے معنی ہو جاتا یے۔

صدر این سی ڈی آر جسٹس ریٹائرڈ سعیدالزماں صدیقی نے کہا کہ ہمارے ملک میں متبادل نظام نہ ہونے کی وجہ سے عدالتوں میں مقدمات کی بھرمار ہے۔ کمزور انتظامیہ عوام کو انصاف فراہم نہیں کر سکتی، مقدمات کی بھرمار ختم کرنے کے لئے حکومت پاکستان کے ساتھ مل کر سول پروسیجر کوڈ (سی پی سی ) 1908 کی دفعہ 89 میں ترمیم کر کے روایتی نظام عدل کو متبادل مصالحتی طریقہ کار میں تبدیل کرایا۔

جسٹس ریٹائرڈ سعیدالزماں صدیقی نے کہا کہ مصالحت ہی پاکستان کا مستقبل ہے، اس نظام کے نفاذ کے بعد عدالتوں میں مقدمات کم ہو جائیں گے، تجارتی، عالمی اور خاندانی مسائل کو بخوبی حل کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سینٹر کے تحت لوگوں کو ایک جگہ جمع ہونے کا موقع فراہم ہوتا ہے جس سے ان میں شعور و آگاہی پیدا ہوتی ہے۔ سی او او این سی ڈی آر ابراہیم ایف الدین نیبتایا کہ مصالحتی طریقہ کار عالمی سطح پر بھی اپنایا جا رہا یے، اس سے بڑے بڑے مسائل کا حل ممکن ہے۔

ثقافتی، صنعتی اور معاشی اعتبار سے بھی یہ طریقہ کارگر ہے، پاکستان اس نظام کو متعارف کرانے والا 151 واں ملک ہے۔ ابراہیم سیف الدین نے بتایا کہ اب تک اس سینٹر کے ذریعے بغیر کسی شرط کے 52 کیسز حل کئے جا چکے ہیں، جرمنی میں 80 فیصد مسائل مصالحتی طریقہ کار سے حل ہو رہے ہیں، ایم۔کیو ایم کے رہنما فاروق ستار نے کہا کہ مصالحتی طریقہ کار کے ذریعے معاشرے میں انصاف فراہم کیا جا سکتا ہے، ایم کیو ایم اس نظام کو مکمل سپورٹ کرتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ سیاسی اور سماجی مسائل کے حل کے لئے بھی اس نظام کو نافذ کیا جائے، دو جماعتوں کے درمیان اختلافات کو بھی مصالحتی طریقے سے حل کرایا جائے۔ پی ٹی آئی رہنما عارف علوی نے اپنے خطاب میں کہا کہ مصالحت زندگی کا لازمی جز ہے، عدالتیں جب مسائل حل نہیں کرتیں تو وہ بڑھتے چلے جاتے ہیں، ماتحت عدالتوں میں ڈیڑھ لاکھ کیسز زیر التوا ہیں۔ انہوں نے چیف جسٹس پاکستان سے اپیل کی کہ وہ ان مسائل کیحل کے لئے احکامات جاری کریں لیکن مصالحت کا طریقہ کار اپنایا جائے