روس نے افغان امن عمل میں ایران اور بھارت کو بھی شامل کر نیکی تجو یز دیدی ، جنگ مسئلے کا حل نہیں، اسی لیے ہم امن عمل کی حمایت کرتے ہیں، افغانستان میں جاری جنگ محض داخلی مسئلہ نہیں اس میں بیرونی قوتیں بھی ملوث ہیں، روسی سفیر

بدھ 10 فروری 2016 09:53

کابل (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔10فروری۔2016ء)روس نے اپنے سابق حلیف ملک افغانستان میں امن عمل کی حمایت کا اعلان کر تے ہو ئے کہا ہے کہ امن عمل: ’روس، ایران اور بھارت کو بھی شامل کیا جائے،کابل میں روس کے سفیر الکسانڈر مانتیسکی نے سفا رتخا نے میں منعقدہ تقریب سے خطا ب کر تے ہو ئے کہا کہ ان کا ملک افغانستان میں ایک ایسے سیاسی تصفیے کا حامی ہے جو پرامن طریقے سے تنازعے کا خاتمہ ممکن بنائے، ”ہماری نظر میں جنگ اس مسئلے کا حل نہیں، اسی لیے ہم امن عمل کی حمایت کرتے ہیں، ہماری نظر میں افغان قیادت میں اس عمل کو آگے بڑہنا چاہیے تاکہ حکومت اور طالبان کے مابین تصفیہ ممکن ہوسکے۔

ان کا یہ بیان اس حوالے سے خاصہ اہمیت کا حامل ہے کہ سابق افغان صدر حامد کرزئی نے افغان امن عمل پر کام کرنے والے چہار فریقی گروپ میں روس، ایران اور بہارت کوبھی شامل کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔

(جاری ہے)

ایرانی فارس خبر رساں ادارے سے گفتگو کے دوران حامد کرزئی کا کہنا تھاکہ افغانستان میں جاری جنگ محض ایک داخلی مسئلہ نہیں بلکہ اس میں بیرونی قوتیں ملوث ہیں لہذا اس کے حل کے لیے علاقائی طاقتوں جیسا کہ روس، بھارت اور ایران کو بھی شامل کرنا چاہیے۔

روسی سفیر سے جب اس بابت پوچھاگیا تو ان کا کہناتھا کہ یہ ایک مثبت نکتہ نظر ہے تاہم کابل حکومت نے باضابطہ طور پر اس حوالے سے ماسکو سے رابطہ نہیں کیا ہے۔فی الحال افغان صدر اشرف غنی کے مشورے پر پاکستان کے ساتھ ساتھ امریکا و چین اس عمل میں شریک ہیں۔ اس چار فریقی گروپ نے ہفتہ کے روز اسلام آباد میں منعقدہ اجلاس کے بعد طالبان پر زور دیاتھا کہ وہ فروری کے اواخر تک براہ راست امن مذاکرات کریں۔

“واضح رہے کہ کابل حکومت اور آزاد مبصرین اس بات پر متفق ہیں کہ اگر اپریل یا مارچ میں موسم بہار کے آغاز سے قبل امن مذاکرات کا سلسلہ شروع نہ ہوا تو بدامنی مزید بڑھ سکتی ہے۔ اگرچہ رواں برس گزشتہ برسوں کے مقابلے میں طالبان نے موسم سرما کے دوران حملوں میں کوئی کمی نہیں کی تاہم بہار میں عسکریت پسند عمومی طور پر نئے جنگی سال کا اعلان کرتے ہیں، جو خاصا خونریز ہوتا ہے۔افغان سکیورٹی دستے اس وقت بھی کم از کم بیس محاذوں پر فوجی آپریشن میں مصروف ہیں۔ اتوار کو 45 افغان فوجی تربیت کے لیے روس روانہ ہوئے۔ سفیر مانتیسکی نے کہا کہ ان جوانوں کو بہترین فوجی افسران بنانے کے لیے روسی حکومت تمام تر ممکن معاونت فراہم کرے گی۔