شامی حکومت میں پانچ سال سے جاری خانہ جنگی کا سیاسی حل نہیں چاہتی بلکہ ،اپنے اتحادی ملک روس کی مدد سے یہ معاملہ عسکری طور پر حل کرنا چاہ رہی ہے۔جان کیری، امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کو باغیوں پر شامی اور روسی بمباری کے جواب میں صرف بیان بازی تک ہی محدود نہیں رہنا چاہیے۔شامی اپوزیشن

جمعہ 5 فروری 2016 09:39

واشنگٹن ( آئی پی اے ۔اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔ 5فروری۔2016ء)امریکہ نے شامی حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ ملک میں پانچ سال سے جاری خانہ جنگی کا سیاسی حل نہیں چاہتی بلکہ اپنے اتحادی ملک روس کی مدد سے یہ معاملہ عسکری طور پر حل کرنا چاہ رہی ہے۔امریکی وزیر خارجہ جان کیری کی جانب سے یہ بیان اقوامِ متحدہ کی جانب سے شام کے تنازع پر سوئس شہر جینیوا میں ہونے والے مذاکرات کی معطلی کے بعد سامنے آیا ہے۔

مذاکرات کی معطلی کا اعلان شام کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی سٹیفن ڈی مستورا نے کیا تاہم ان کا کہنا ہے کہ یہ تعطل عارضی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ اختتام نہیں ہے اور نہ ہی مذاکرات کی ناکامی ہے؟شامی حزبِ اختلاف نے بات چیت کی ناکامی کی وجہ باغیوں کے ٹھکانوں پر مسلسل ہونے والی روسی بمباری کو قرار دیا ہے جبکہ روس نے اپنی یہ فضائی مہم بند کرنے سے انکار کیا ہے۔

(جاری ہے)

واشنگٹن میں جان کیری کا اپنے بیان میں کہنا تھا کہ روسی مدد سے شامی حکومت کی افواج کے حزبِ مخالف کے کنٹرول والے علاقوں پر مسلسل حملے اور حکومتی افواج کی جانب سے لاکھوں شہریوں کا محاصرہ اس بات کے واضح اشارے ہیں کہ نیت سیاسی حل کی جگہ ایک عسکری حل کی ہے۔انھوں نے کہا کہ وہ وقت اب گزر گیا کہ وہ شامی حکومت اور اس کے حامی شام کے بحران کے پرامن حل کے بارے میں اپنی نیت کے تناظر میں عالمی برادری کا اعتماد بحال کر سکیں۔

جان کیری نے کہا کہ بات چیت میں اس تعطل کے دوران دنیا کو چاہیے کہ وہ ایک ہی سمت میں آگے بڑھے جو کہ شامی عوام کی مشکلات اور وہاں جاری جارحیت کا خاتمہ ہے تاکہ یہ تنازع مزید جاری رہنے کی بجائے ختم ہو سکے۔ادھر شامی حزبِ مخالف کے مذاکرات کار بسما کدمانی نے کہا ہے کہ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کو باغیوں پر شامی اور روسی بمباری کے جواب میں صرف بیان بازی تک ہی محدود نہیں رہنا چاہیے۔

واشنگٹن میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بمباری کا رکنا وہ فوری قدم تھا جو اٹھایا جا سکتا تھا۔ ورنہ تو یہ ہمارے لیے جینیوا کا ایک ویسا ہی دورہ تھا جو ہم نے 2014 میں کیا تھا۔انھوں نے کہا کہ بدقسمتی سے جواب شدید فضائی حملوں کی شکل میں آیا۔ یہ حلب پر دوبارہ قبضے کے لیے اس علاقے پر روس کی ایسی فضائی مہم ہے جس کی مثال نہیں ملتی۔

متعلقہ عنوان :