دہشت گردی کے خاتمے کیلئے بنائے گئے قوانین بے سود رہے، مولانا فضل الرحمن،سانحہ آرمی پبلک سکول ،باچا خان یونیورسٹی سمیت دیگر دہشت گردی واقعات پر جوڈیشل کمیشن بننا چاہیے مکمل حمایت کرتاہوں،پشاور میں بھتہ خوری عروج پر ہے، پہلے بھتہ خور پیسے پہنچانے کی بات کرتے تھے اب کہتے ہیں خود پیش ہو جاؤ، مدارس کے خلاف مغرب کے ایجنڈے کے تحت کارروائی کی جا ررہی ہے،کراچی میں بلدیاتی انتخابات میں منتخب ہونے والے نمائندوں کو اختیارات ملنے چاہئیں، کہ بین الاقوامی منڈی میں تیل کی قیمتیں کم ہوئی ہیں تو عوام کو ریلیف ملنا چاہئے ،سربراہ جے یو آئی کی میڈیا سے گفتگو

جمعرات 28 جنوری 2016 10:07

ملتان (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔ 28جنوری۔2016ء) جمعیت علماء اسلام (ف ) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کے اس موقف سے آگے جاتا ہوں اور کہتا ہوں کہ سانحہ آرمی پبلک سکول ، سانحہ چارسدہ کے علاوہ دوسرے واقعات پر بھی جوڈیشل کمیشن بننا چاہئے اس کی مکمل حمایت کرتا ہوں کیونکہ دشمن للکار کر کہہ رہا ہے کہ سب کچھ اس نے کیا ہے ۔

یہ بات انہوں نے بدھ کی سہہ پہر مدرسہ قاسم العلوم گل گشت ملتان میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہی ۔ انہوں نے کہا کہ جو لوگ کہتے تھے کہ ضرب عضب کو مقدس بنا کر ملک دشمنوں کا صفایا ہو جائے گا اور اب لوگوں کو گزند تک نہیں پہنچے گی تو پھر یہ کیا ہو رہا ہے انہوں نے کہا کہ اس بارے میں قوم کو تحفظات ہیں جن کو دور کرنا چاہئے حکمرانوں کو قوم کو اعتماد میں لینا چاہئے ۔

(جاری ہے)

اس دہشت گردی کے خاتمے کے لئے ایک قانون بنا ، پھر دوسرا بنا اور پھر تیسرا بنا اگر دہشت گردی کا خاتمہ نہ ہو سکا ۔ ساری کارروائی مدارس کے خلاف ہوئی انہوں نے کہاکہ حکمرانوں نے کہا تھا کہ دہشت گردوں کے خاتمے کے لئے فوجی عدالتیں ہونی چاہئیں اب ان کو بھی اختیارات دے دیئے گئے ۔ مگر پھر بھی کچھ نہ ہوا ۔ انہوں نے کہاکہ ہم نے اس وقت بھی کہا تھا کہ آرمی ایکٹ میں مدارس کے خلاف کارروائی کی بات نہ رکھی جائے ۔

کیونکہ مدارس مذہب کا تحفظ کرتے ہیں ۔مگر ایسا نہیں کیا گیا اور ہم نے جو حل دیا تھا اس کو مسترد کر دیا گیا ۔انہوں نے کہا کہ سب کارروائی مدارس کے خلاف امریکی ایجنڈے پر ہوئی ۔ ایجنڈا امریکہ کا ہے جنگ ہمارے گھر میں لڑی جا رہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اب حکمران کہتے ہیں کہ اس سال دہشت گردی کا خاتمہ ہو جائے گا جبکہ اوبامہ کہہ رہے ہیں کہ اگلے سال تک بھی پاکستان میں ایمرجنسی کے حالات رہیں گے ۔

انہوں نے مزید کہا کہ کراچی کی صورت حال میں کچھ بہتری آئی تھی لوگ مطمئن ہوئے مگر مدارس کو نشانے پر رکھا گیا ۔انہوں نے کہا کہ پشاور میں بھتہ خوری عروج پر ہے پہلے بھتہ خور پیسے پہنچانے کی بات کہتے تھے اب کہتے ہیں کہ پیش ہو جاؤ ۔ انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا حکومت کے پاس چارسدہ یونیورسٹی میں حملہ کرنے والوں کے نام آ چکے تھے مگر یہ بچوں کو تحفظ نہ دے سکے اب تو لوگوں نے بچوں کو سکول بھیجنا بند کر دیا ۔

انہوں نے کہا کہ مدارس کے خلاف مغرب کے ایجنڈے کے تحت کارروائی کی جا رہی ہے ۔انہوں نے کہا کہ مدارس تو 65 ہزار ہیں اور یونیورسٹیاں 7 ، 8 ہیں مگر ان کو کوئی تحفظ نہیں دے سکے ۔ انہوں نے کہا کہ جس ملک میں مسلح تنظیمیں اور مسلح گروہ موجود ہوں ان کے خلاف قانون کارروائی نہیں کر رہا ۔ مدارس کے خلاف کارروائی ہو رہی ہے ۔انہوں نے کہا کہ حکو مت نے ہماری بات نہیں مانی ہمارے تحفظات دور نہیں کئے ہم حکومت کے خلاف نہیں ہیں ہمیں ہمیشہ بہت سے معاملات میں حکومت کو بحران سے نکالا ہے مگر انہوں نے ہمارے تحفظات دور نہیں کئے ہیں انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ فوج ایک ادارہ ہے فیصلے ادارے کے اندر ہوتے ہیں اور پچھلے آرمی چیف کی ایک ٹیم تھی اب بھی ٹیم ہو گی انہوں نے کہا کہ ہماری فوج میں مدمت ملازمت میں توسیع کی روایت نہیں تھی یہ کیانی نے ڈالی ۔

یا مارشل لاء لگے تب ڈالی گئی ۔انہوں نے کہا کہ آرمی چیف کے بیان سے افواہیں دم توڑ گئی ہیں انہوں نے مزید کہا کہ ہم لوگ ملک میں امن چاہتے ہیں اور امن قائم کرنے کے لئے ادارے موجود ہیں ۔ میں کوئی پولیس آفسر نہیں ہوں جو بتاؤں کہ کیسے کرنا چاہئے ۔ حل بتا چکا ہوں جس کو قبول نہیں کیا گیا اب دوبارہ حل نہیں بتاؤں گا۔ ہم جمہوری لوگ ہیں اور اس کے ساتھ چل رہے ہیں اور ہم نے جو حل بتایا تھا اس کی پاداش میں ہمیں الیکشن میں انتخابی نتائج میں سزائیں دی گئیں ۔

انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ پالیسی اسٹیبلشمنٹ بناتی ہے فیصلہ اسٹیبلشمنٹ کرتی ہے انہوں نے کہا کہ جو فیصلہ امریکہ کرے گا موجودہ حالات میں اس کی پیروی کریں گے ۔جو فیصلہ اسٹیبلشمنٹ کرے گی ہم اس کی بھی پیروی کریں گے انہوں نے ایم کیو ایم کو کراچی میں اختیارات دینے کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ بلدیاتی انتخابات کرائے ہیں کیوں کامیاب ہونے والے امیدواروں کو اختیارات نہیں ملنے چاہئیں تاکہ وہ عوام کی خدمت کر سکیں ۔

انہوں نے کہا کہ جو مشکل حالات ہمیں درپیش ہیں وہ سب کی مشکل ایک ہے ہمارا ملک 65 سال میں اتنا پیچھے چلا گیا ہے کہ اس کو ایک دو سال میں کوئی بھی حکومت بہتر نہیں کر سکتی ۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب اور ایران کے مفاہمت کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اس سے پاکستان کا مقام بڑھا ہے اور اس حوالے سے عالم اسلام ہے اس کو توقع تھی کہ پاکستان کا مفاہمت کا کردار ادا کرے گا ۔

سعودی عرب دوست ملک ہے اور ایران بھی ہمارا ہمسایہ ملک ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم کیوں نہ چاہتے ان میں مفاہمت ہو انہوں نے کہا کہ پندرہ سال قبل اگر خود کو امریکی جنگ میں نہ جھونکتے تو آج پاکستان کا مقام دنیا میں بہت زیادہ ہوتا ہم غلامی کو سمجھتے ہیں کہ ہم تنہائی سے بچ گئے ۔ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ کسی دور میں بھی مسئلہ کشمیر کے حل کی بات نہیں ہوئی البتہ جدوجہد کی بات ہوتی رہی ہے ۔

پانچ فروری کو پوری قوم کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی منائے گی انہوں نے بین الاقوامی منڈی میں تیل کی قیمتوں کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ بین الاقوامی منڈی میں تیل کی قیمتیں کم ہوئی ہیں تو پاکستان میں عوام کو ریلیف ملنا چاہئے بعدازاں انہوں نے مدرسہ قاسم العلوم میں شوری ٰ کے اجلاس کی صدارت کی ۔