تلور کے شکار پر عائد پابندی ختم،سپریم کورٹ نے فیصلے پر نظرثانی بارے درخواستیں سماعت کیلئے منظور کرلیں،4 ججز نے فیصلے کے حق میں جبکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مخالفت کی

ہفتہ 23 جنوری 2016 09:11

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔ 23جنوری۔2016ء) سپریم کورٹ نے عرب شہزادوں کے تلور کے شکار پر عائد پابندی ختم کردی ہے۔سپریم کورٹ کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں 5 رکنی بنچ نے پاکستان میں تلور کے شکار پرعائد پابندی کے حوالے سے دائر نظر ثانی کی درخواستوں سے متعلق کیس پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے تلور کے شکار پر عائد پابندی ختم کردی۔

پانچ میں سے 4 ججز نے نظر ثانی کی درخواستیں منظور کرتے ہوئے شکار کی اجازت دی جبکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تلور کے شکار پر عائد پابندی ختم کرنے کی مخالفت کی۔سپریم کورٹ نے حکومتی اور سول درخواستیں سماعت کیلئے منظور کرلیں،سپریم کورٹ نے اپنے عبوری فیصلے میں کہا کہ تلور کے شکار پر عائد پابندی سے متعلق نظر ثانی کی درخواستوں کو ازسر نو سنا جائے گا، وفاق اور دیگر فریقین کی جانب سے دائر درخواستوں کی ازسر نو سماعت کے بعد تفصیلی فیصلہ سنایا جائے گا۔

(جاری ہے)

فیصلہ جسٹس میاں ثاقب نثار نے تحریر کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وفاقی وزارت خارجہ امور نے عرب مہمانوں کی جانب سے محدود حد تک تلور کے شکار بارے صوبائی حکومتوں کو خطوط ارسال کئے تھے جنہیں سندھ اور بلوچستان ہائی کورٹس میں پیش بھی کیا گیا تھا ان خطوط میں عرب مہمانوں کو 2013-14ء اور 2015ء میں شکار کی اجازت دی گئی تھی دونوں عدالتوں نے اس خط کو مسترد کردیا تھا جس پر وزارت خارجہ اور دیگر نے متاثر ہ ہونے پر سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا ۔

عامر ظہور الحق نے بھی آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت آئینی درخواست سپریم کروٹ میں دائر کی تھی اور تلور کے غیر قانونی شکار کو روکنے کی استدعا کی تھی جس پر سپریم کورٹ نے 19اگست 2015ء کو حکمنامے جاری کرتے ہوئے شکار پر پابندی عائد کردی تھی قوانین کا جائزہ لینے پر پتہ چلا کہ ان قوانین میں کہیں بھی شکار پر مکمل پابندی عائد نہیں کی گئی ہے بلوچستان کے2014 ایکٹ میں تلور کے شکار کو گیم اینمل (جانوروں کا شکار ) کے طور پر قرار دیا گیا سندھ کے 1972 کے آرڈیننس کے تحت صوبائی حکومت کسی بھی جانور یا پرندے کو شکار کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرسکتی ہے سپریم کورٹ کا شکار پر مکمل پابندی کا فیصلہ حقائق کے برعکس ہے اگر قانون ساز ادارے اس حوالے سے قانون سازی کرنا چاہتے ہیں تو تب ان درخواستوں پر دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہے اس پرندے کے شکار کی اجازت دینے کے ساتھ ساتھ اس کی نسل معدوم ہونے سے بچانے کے اقدامات بھی کئے جانے چاہیں جسٹس قاضی فائز عیسی نے اختلافی نوٹ میں لکھا ہے کہ آئین و قانون تلور کے شکار کی اجازت نہیں دیتے صوبائی حکومت صوبوں کو اس سلسلے میں یہ ہدایات جاری نہیں کرسکتی آئینی ترمیم کے بعد اس طرح کے معاملات کا فیصلہ کرنا صوبائی اختیارات کے تحت آتا ہے ۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے تلور کے شکار پر پابندی کے بلوچستان ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے 19 اگست 2015 کو تلور کے شکار پر پابندی عائد کرتے ہوئے عرب شہزادوں کے لائسنس بھی منسوخ کر دیئے تھے جبکہ 5 رکنی بنچ نے 8 جنوری 2016 کو تلور کے شکار پر عائد پابندی سے متعلق کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

متعلقہ عنوان :