سندھ اسمبلی ، اپوزیشن کے زبردست شور شرابے اور احتجاج کے باوجود صوبائی کریمنل پراسیکیوشن سروس ترمیمی بل 2015 منظو ر ،پراسیکیوٹرز عدالت کی رضامندی سے کسی بھی ملزم کیخلاف کوئی مقدمہ یا مقدمات واپس لے سکتے ہیں ،پراسیکیوٹر جنرل کو بھی وسیع اختیارات مل گئے ،ترامیم کے بعد بل سندھ کریمنل پراسیکیوشن سروس ( تشکیل ، فرائض اور اختیارات ) ( ترمیمی ) ایکٹ 2015 کہلائے گا ، اپوزیشن ارکان نے بل کی کاپیاں پھاڑ دیں، نو نو کے نعرے

ہفتہ 16 جنوری 2016 09:13

کراچی ( اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔ 16جنوری۔2016ء) سندھ اسمبلی میں جمعہ کو صوبائی حکومت نے اپوزیشن کے زبردست شور شرابے اور احتجاج میں کریمنل پراسیکیوشن سروس ترمیمی بل 2015 منظور کرا لیا ، جس کے تحت پراسیکیوٹرز کو یہ اختیار حاصل ہو گیا ہے کہ وہ عدالت کی رضامندی سے کسی بھی ملزم کے خلاف کوئی مقدمہ یا مقدمات واپس لے سکتے ہیں ۔ اس بل کے تحت پراسیکیوٹر جنرل کو بھی وسیع اختیارات حاصل ہو گئے ہیں ، جن کے تحت وہ پراسیکیوٹرز کو کام کی تفویض اور ان کے تبادلے و تقرریوں کے احکامات جاری کر سکتا ہے ۔

اس بل کے تحت سندھ کریمنل پراسیکیوشن سروس ( تشکیل ، فرائض اور اختیارات ) ایکٹ 2009 میں متعدد ترامیم کی گئی ہیں ۔ یہ سندھ کریمنل پراسیکیوشن سروس ( تشکیل ، فرائض اور اختیارات ) ( ترمیمی ) ایکٹ 2015 کہلائے گا ۔

(جاری ہے)

اجلاس کے ایجنڈے کی کارروائی میں اس بل کا صرف تعارف کرایا جانا تھا لیکن بل متعارف ہونے کے بعد سینئر وزیر تعلیم و پارلیمانی امور نثار احمد کھوڑو نے یہ تحریک پیش کی کہ اس بل کی منظوری کی اجازت دی جائے ۔

اس پر اپوزیشن ارکان اپنی بینچوں پر کھڑے ہوگئے اور انہوں نے نو نو کے نعرے لگانا شروع کر دیئے ۔ سرکاری ارکان نے سینئر وزیر کی تحریک منظور کر لی ۔ اس کے بعد سینئر وزیر نے اس بل کی شق وار منظوری حاصل کی ۔ اس دوران اپوزیشن ارکان ڈپٹی اسپیکر سیدہ شہلا رضا کے ڈائس کے سامنے آ کر احتجاج کرتے اور نعرے لگاتے رہے ۔ انہوں نے بل کی کاپیاں بھی پھاڑ دیں ۔

اس ترمیمی بل کے تحت ایک پراسیکیوٹر عدالت کی رضا مندی سے کسی بھی شخص کے خلاف ایک یا ایک سے زیادہ جرائم میں استغاثہ واپس لے سکتا ہے ۔ اگر جرم کی سزا تین سال تک ہے تو اس کے لیے اسے ڈسٹرکٹ پبلک پراسیکیوٹر سے اجازت لینا ہو گی ۔ اگر جرم کی سزا سات سال تک ہے تو اسے اس کے لیے پراسیکیوٹر جنرل سے اجازت لینا ہو گی ۔ دیگر تمام جرائم میں حکومت سندھ سے اجازت لینا ہو گی ، جن کے مقدمات خصوصی عدالتوں یا ہائی کورٹ کے ماتحت کسی ٹرائل کورٹ میں چل رہے ہوں گے ۔

یہ استغاثہ یا مقدمہ فیصلہ ہونے سے پہلے واپس لیا جا سکے گا ۔ پراسیکیوٹر جنرل یا اس کا مجاز پراسیکیوٹر ان اسباب سے تحریری طور پر عدالت کو حکومت کی طرف سے آگاہ کرے گا کہ پراسیکیوٹر ملزم پر کیس نہیں چلانا چاہتا ہے ۔ لہذا ملزم کے خلاف تمام کارروائیاں ختم کی جائیں اور اسے بری کیا جائے ۔ بشرطیکہ یہ بریت اس وقت تک رہائی کے مترادف نہیں ہو گی ، جب تک کہ عدالت اس کی اجازت نہ دے ۔

اس بل کے تحت حکومت سروس کی عمومی نگرانی کرے گی ۔ انتظامی کنٹرول پراسیکیوٹر جنرل کے پاس ہو گا ۔ تمام پراسیکیوٹرز اور اس سروس کے تمام ارکان پراسیکیوٹر جنرل کے ماتحت فرائض انجام دیں گے ۔ ایک ضلع کے اندر تمام پراسیکیوٹر ڈسٹرکٹ پبلک پراسیکیوٹر کے ماتحت کام کریں گے ۔ پراسیکیوٹر جنرل کو یہ اختیار حاصل ہو گاکہ وہ پراسیکیوٹرز کو کام کی تفویض اور ان کے تبادلے و تقرریاں کر سکے ۔

پراسیکیوٹر جنرل یا اس کے مجاز پراسیکیوٹر کو یہ اختیار بھی حاصل ہو گا کہ وہ سپریم کورٹ ، ہائی کورٹ ، وفاقی شریعت عدالت یا کسی خصوصی عدالت یا ٹریبونل میں پراسیکیوٹر کو کام تقسیم کرے ۔ بل کے تحت پراسیکیوٹر عدالت کو کسی ایک یا تمام ملزمان کے خلاف جرائم کی رپورٹ ارسال کرے گا ۔ یہ رپورٹ مقدمہ کے حالات اور حقائق کو مدنظر رکھ کر بنائی جائے گی ۔

پراسیکیوٹر جنرل کو یہ اختیار حاصل ہو گا کہ وہ پراسیکیوٹر یا تحقیقات کرنے والے کسی افسر کو عمومی گائیڈ لائنز جاری کر سکے ۔ پراسیکیوٹر جنرل اور ڈسٹرکٹ پبلک پراسیکیوٹر مجاز اتھارٹی کو کسی بھی ایسے سرکاری ملازم کے خلاف انضباطی کارروائی کے لیے لکھ سکتے ہیں ، جو تحقیقات یا پراسیکیوشن میں کام کر رہے ہوں ۔ ایک پراسیکیوٹر کو مذکورہ قانون کے سیکشن نائن کے تحت تمام اختیارات حاصل ہوں گے ۔

وہ تحقیقات کرنے والے کسی بھی افسر یا قانون نافذ کرنے والے ادارے سے مذکورہ وقت کے اندر رپورٹ طلب کر سکتا ہے ۔ وہ قانون نافذ کرنے والے کسی بھی ادارے یا کسی بھی سرکاری محکمے سے ریکارڈ یا دیگر دستاویزات بھی طلب کر سکتا ہے ۔ بل کے اغراض و مقاصد میں بتایا گیا ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان اور ہائیکورٹ آف سندھ کے فیصلوں پر عمل درآمد کرنے کے لیے یہ ترامیم کی گئی ہیں تاکہ سندھ کریمنل پراسیکیوشن سروس کے انتظامی کنٹرول اور اختیارات میں بہتری لا کر اس سروس کو خود مختار بنایا جائے ۔

بل کی منظوری کے بعد ڈپٹی اسپیکر سیدہ شہلا رضا نے اجلاس پیر کی صبح تک ملتوی کر دیا ۔ اجلاس کے بعد صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہار الحسن نے کہا کہ حکومت نے جلد بازی میں یہ بل منظور کرایا ہے ۔ اس بل کے تحت حکومت کو یہ اختیار حاصل ہو گیا ہے کہ وہ کسی بھی مرحلے پر کسی کے خلاف بھی مقدمہ واپس لے لے ۔ کسی بھی ایماندار اور اچھے پراسیکیوٹر کو حکومت ایک مقدمے سے ہٹا سکے گی اور اپنے مرضی کے پراسیکیوٹر کی تعیناتی کر سکے گی ۔

انہوں نے کہا کہ ایجنڈے میں صرف بل کا تعارف شامل تھا ۔ آج جمعہ کا دن تھا ۔ ویسے ہی اجلاس بہت دیر تک چلا ۔ حکومت نے اپوزیشن سے مشاورت کیے بغیر تین منٹ میں بل منظور کر الیا ۔ اس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کچھ مقدمات واپس لینا چاہتی ہے ۔ اس سوال پر کہ کیا حکومت ڈاکٹر عاصم کے خلاف مقدمات واپس لینا چاہتی ہے ؟ اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ وہ کسی کے خلاف بھی مقدمات واپس لے سکتی ہے ۔ ایم کیو ایم کے سینئر رکن سید سردار احمد نے کہا کہ اس بل کے تحت حکومت عدالت کی رضا مندی سے مقدمات واپس لے سکتی ہے ۔ ہمارا اعتراض یہ ہے کہ ان شرائط اور حالات کا تعین نہیں کیا گیا ہے ، جن کے تحت مقدمات واپس لیے جا سکتے ہیں ۔