شام ، عراق اورافغانستان میں خانہ جنگی : پیرس پناہ گزینوں سے بھرگیا، پیرس میں تل دھرنے کی جگہ نہ رہی ، آبادی 20لاکھ34ہزار نفوس کے لگ بھگ ہو گئی، روزگار کے مواقع اور رہائشیں کم پڑ گئیں ،سینکڑوں افراد مجبوراً فٹ پاتھوں پر سونے پر مجبور ، سڑکوں پر ڈکیتی ، چوری ، راہزنی سمیت دیگر جرائم کی وارداتیں بھی بڑھ گئیں

بدھ 13 جنوری 2016 09:47

پیرس(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔ 13جنوری۔2016ء) شام ، عراق اورافغانستان میں خانہ جنگی کے باعث پیرس پناہ گزینوں سے بھر گیا،شہر میں تل دھرنے کی جگہ نہ رہی ،پیرس کی آبادی 20لاکھ34ہزار نفوس کے لگ بھگ ہو گئی ، روزگار کے مواقع اور رہائشیں کم پڑ گئیں ،سینکڑوں افراد مجبوراً فٹ پاتھوں پر سونے پر مجبور ہیں جبکہ سڑکوں پر ڈکیتی ، چوری ، راہزنی سمیت دیگر جرائم کی وارداتیں بھی بڑھ گئی ہیں۔

غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق حالیہ مہینوں کے دوران ہونے والے کچھ واقعات نے پیرس کو ایسا بدلا ہے کہ گویا سب کچھ ہی بدل گیا۔ اب یہاں آپ کو سیکڑوں افراد مجبورا ًفٹ پاتھوں پر سوتے ہو ئے بھی مل جائیں گے ،روزگار کیمواقع بہت کم ہوگئے ہیں،سڑکوں پر رہزنی اور چوری چکاری کی وارداتیں بھی عام ہوگئی ہیں اور امیگریشن کا نظام کنٹرول سے باہر ہوگیا ہے۔

(جاری ہے)

شام وعراق میں خانہ جنگی اور افغانستان میں عدم تحفظ کے باعث پناہ گزینوں کی ایک بڑی تعداد پیرس ا?بسی ہے، اسی وجہ سے شہر میں تل دھرنے تک کی جگہ نہیں۔سرکاری اعدادوشمار کے مطابق اس وقت پیرس کی آبادی لگ بھگ بیس لاکھ چونتیس ہزار نفوس تک پہنچ چکی ہے۔پیرس کے باسیوں کو زیادہ ترسیاہ فام افریقی اور بعض عرب ممالک کے باشندوں نے پریشان کررکھا ہے جنہوں نے شہر کی شیشے جیسی چمکتی اور صاف ستھری سڑکوں کو آلودہ کردیا ہے۔

جگہ جگہ جوس کے ڈبے، چپس کے خالی ریپر اور سگریٹ کے ٹوٹے جا بجا بکھرے نظر آتے ہیں۔بنگلہ دیشی باشندے بھی شہر کو آلودہ کرنے میں کسی طور پیچھے نہیں، وہ پیرس کی سڑکوں‘ فٹ پاتھوں اور گلی کوچوں میں غیرقانونی طورپرمختلف اشیاء فروخت کرتے نظر آتے ہیں۔یہ افریقی چوری چکاری اور رہزنی کی وارداتوں میں بھی ملوث نظرآتے ہیں جو اکثر راہ چلتے پرامن شہریوں کو لوٹ کر فرار ہوجاتے ہیں۔

روزگار کے مواقع جو پہلے ہی کم تھے، اِن نئیآنے والے امیگرنٹس کی وجہ سے مزید کم ہوتے جارہے ہیں۔ اور جو لوگ چھوٹے موٹے روزگار سے وابستہ ہیں، ان کی اجرت بھی انتہائی قلیل ہوتی جارہی ہے۔ اس بدلتی ہوئی صورتِ حال نے روشن مستقبل کی تلاش میں آنے والوں کی نیندیں حرام کرکے رکھ دی ہیں کیوں کہ فرانس کے قانون کے مطابق کوئی بھی پناہ گزین اس وقت تک کام نہیں کرسکتا جب تک اسے باقاعدہ پناہ گزین تسلیم نہیں کرلیا جاتا، نہ ہی وہ کسی قسم کا روزگار حاصل کرسکتا ہے۔شہر میں پناہ گزینوں کے نئے سیلاب سے امیگریشن حکام اس قدر پریشان ہیں کہ انہوں نے مختلف مقامات پر یہ پوسٹرز نصب کروادیئے ہیں کہ ”نئے آ نے والے پناہ گزینوں کے رش کے باعث امیگریشن کا نظام کنٹرول سے باہر ہوگیا ہے۔

متعلقہ عنوان :