ایران، پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے کا صرف60کلو میٹر حصے پر کام باقی رہ گیاہے،غلام مرتضیٰ جتوئی، اسکی تکمیل اور تاپی سمیت ایل این جی ٹرمینلز کے قیام سے یقینی طور پر پاکستان کو 2018 تک گیس بحران سے مکمل نجات مل جائے گی،کراچی چیمبر کے دورے پر اجلاس سے خطاب

منگل 22 دسمبر 2015 09:33

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔22دسمبر۔2015ء)وفاقی وزیر صنعت و پیداوار رئیس غلام مرتضیٰ جتوئی نے کہا ہے کہ ایران، پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے کا صرف60کلو میٹر حصے پر کام باقی رہ گیاہے جس کی تکمیل اور ترکمانستان ،افغانستان، پاکستان ، انڈیا پائپ لائن(تاپی) سمیت ایل این جی ٹرمینلز کے قیام سے یقینی طور پر پاکستان کو 2018 تک گیس بحران سے مکمل نجات مل جائے گی۔

یہ بات انہوں نے پیر کو کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری( کے سی سی آئی ) کے دورے کے موقع پر اجلاس سے خطاب میں کہی۔اس موقع پر چیئرمین بزنس مین گروپ اور سابق صدر کے سی سی آئی سراج قاسم تیلی،کے سی سی آئی کے صدر یونس محمد بشیر،سینئر نائب صدر ضیاء احمد خان، نائب صدر محمد نعیم شریف، سابق صدر کے سی سی آئی افتخار احمد وہرہ اور منیجنگ کمیٹی کے اراکین بھی موجود تھے۔

(جاری ہے)

وفاقی وزیرصنعت و پیداوار نے کہاکہ ایران پر پابندیوں کے خاتمے سے آئی پی منصوبے میں تیزی آئے گی اور پائپ لائن کا بقیہ رہ جانے والا60کلومیٹر کام بھی جلد مکمل ہو جائے گا۔موجودہ حکومت کی یہ کوشش ہے کہ ملک کو درپیش توانائی بحران پر2018کے اختتام تک قابو پالیا جائے۔انہوں نے کہاکہ پچھلی حکومت نے توانائی بحران کو دور کرنے پر کوئی توجہ نہیں دی جس کے نتیجے میں 12ہزار میگا واٹ بجلی کی قلت پیدا ہوئی اور بجلی بحران موجودہ حکومت کو ورثے میں ملا تاہم وزیراعظم محمد نوازشریف کی اولین توجیح ہے کہ اس بحران سے جلد ازجلد نمٹا جائے۔

حکومت بجلی کی پیداواری صلاحیت کو بہتر بنانے کے لیے ہائیڈرو،گیس،کول،سولر اور ونڈ پاور پلانٹ کا قیام عمل میں لاکر بجلی بحران سے نمٹنے کے لیے بھرپور توجہ دے رہی ہے۔انہوں نے وزارت صنعت وپیدوار، وزارات خزانہ ، وزارت تجارت اور دیگر متعلقہ وزارتوں کے درمیان باہمی اور موٴثر رابطوں کو یقینی بنانے پر بھی زور دیا۔انہوں نے کراچی اور ملک بھرمیں موجود ایکسپورٹ پروسیسنگ زونز میں دستیاب سہولیات کاذکر کرتے ہوئے تاجروصنعتکاربرادری کو مشورہ دیا کہ وہ ان ایکسپورٹ پروسیسنگ زونز باالخصوص صوبے کے دیہی علاقوں میں قائم کیے گئے ایکسپورٹ پروسیسنگ زونز میں اپنے صنعتی یونٹس قائم کرنے کے بارے میں سوچیں تاکہ سندھ کے بے روزگار نوجوانوں کو باعزت روزگار کے مواقع مسیر آسکیں۔

بزنس مین گروپ کے چیئرمین اور سابق صدر کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسڑی( کے سی سی آئی) سراج قاسم تیلی نے کہا ہے کہ کسی بھی ملک کی معیشت میں صنعتیں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں اگر صنعتیں چلتی رہیں گی تو ملک بھی آسانی سے چلتا رہے گا۔ صرف کراچی کے ساتوں صنعتی زونز میں 16ہزار سے زائد صنعتیں فعال ہیں جو تقریباً20لاکھ مزدووں کو روزگار فراہم کرتی ہیں اور اس کا مطلب ہے کہ اگر ان 20لاکھ افراد کے اہل خانہ کو شمار کیاجائے تو یہ صنعتیں80سے90لاکھ افراد کی روٹی کا بندوبست کرتی ہیں۔

صنعتی یونٹس کو بغیر کسی پریشانی کے چلانے کے لیے ضروری ہے کہ اانفرااسٹرکچر کی دستیابی،پانی ، گیس اور بجلی کی بلا تعطل فراہمی ملک کے تمام صوبوں میں قائم صنعتی یونٹس کی بنیادی ضروریات ہیں۔انہوں نے کہاکہ صرف کراچی کے تاجرو صنعتکاروں کو پانی، بجلی اور گیس کے مسائل کا سامنا نہیں بلکہ پنجا ب سمیت دیگر صوبوں کی صنعتوں کو بھی ایسے ہی مسائل کا سامنا ہے جو مناسب نظام کے فقدان اور زمینی حقائق کو مد نظررکھے بغیر کئے گئے فیصلوں کے باعث پیدا ہو رہے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ ایک وقت ایسا تھا جب آمریت ہو یا جمہوری دور صوبوں میں نسل ،زبان کا فرق بالکل نہیں تھامگر بدقسمی سے اب ایسا محسوس ہورہا ہے کہ جیسے بٹوارہ ہو گیا ہو کیونکہ اب ہر کوئی صوبے ، نسل اور زبان کی بات کرتا ہے جو ملک کے مفاد میں ہرگز نہیں ۔انہوں نے کراچی کی صنعتوں کو درپیش گیس بحران کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ یہ آئین پاکستان میں درج ہے کہ صوبوں کے گیس جیسے وسائل پر سب سے پہلا حق اسی صوبے کا ہے جہاں سے وسائل حاصل کیے گئے ہوں اور صوبوں کویہ حق ہے کہ وہ پہلے اپنی طلب کو پورا کر کے اضافی گیس دوسرے صوبوں کودیں لیکن بدقمستی سے صوبہ سندھ کو 72فیصد گیس کی پیدوار کرنے کے باوجود بھی طلب کے مطابق گیس نہیں ملتی اور یہ طلب صرف 25 سے 30 فیصد ہے جس کے نتیجے میں صنعتی یونٹس کی کارکردگی بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔

آئین پاکستان پر نہ پیپلزپارٹی کی حکومت نے عمل کیا اور نہ ہی نواز حکومت عمل کررہی ہے ۔انہوں نے کہاکہ حکومت کی موجودہ پالیسیاں سندھ اور پنجاب کے صنعتکاروں کے حق میں نہیں اور تاجر وصنعتکار برادری ان پالیسیوں کو سمجھنے سے قاصر ہے۔انہوں نے وفاقی وزارت صنعت و پیداوار،وزارت خزانہ، وزارت تجارت اور متعلقہ وزارتوں سمیت کراچی چیمبر کے ساتھ ایک مشترکہ حکمت عملی وضع کرنے کی بھی درخواست کی تاکہ تاجروصنعتکار برادری کو ہر ممکن سہولیات فراہم کی جاسکیں۔

قبل ازیں کے سی سی آئی کے صدر یونس محمد بشیر نے وفاقی وزیرصنعت و پیداوار کا خیرمقدم کرتے ہوئے وفاقی حکومت پر زور دیا کہ کراچی کی تاجر وصنعتکار برادری کو درپیش سنگین مسائل سے مشترکہ طور پر نمٹنے کے لیے واضح پالیسی وضع کی جائے نیز کوئی بھی حکمت عملی کو حتمی شکل دینے سے پہلے تاجر برادری کو آن بورڈ لیا جائے۔انہوں نے مالی سال 2015میں برآمدی شعبے کی مایوس کن کارکردگی پر اپنے تحفظات کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملکی برآمدات4سال کی کم ترین سطح 23.88ارب ڈالر پر آگئے ہیں اس طرح برآمدات میں4.8فیصد کمی واقع ہوئی جو مالی سال2014میں25.11ملین ڈالر تھیں اور اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو 2016کے اختتام تک برآمدات میں18سے20 مزید کمی کا خدشہ ہے ۔

انہوں نے کہاکہ ملکی برآمدات کو مسابقت کے قابل بنانے کے لیے معیارات کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے جبکہ توانائی بحران سمیت پانی،گیس کی قلت کے مسائل کو دور کرنے اور بڑھتی کاروباری لاگت کوکم کرنے کے لیے کراچی چیمبرکے ساتھ مشاورت کی جائے جو ملک کی تاجروصنعتکار برادری کی سب سے بڑا نمائندہ ہے۔