کچھ لوگوں نے غلط کاریاں چھپانے کیلئے سیاست کو ڈھال بنا رکھا ہے،چوہدری نثار،کوئی ادارہ جواب طلبی کر تا ہے تو سندھ پر حملے سے تشبیہہ دیتے ہیں، سندھ پر کوئی ادارہ یا وفاقی حکومت حملہ آور نہیں ہے،سند ھ پر حملہ آور وہ لوگ ہیں جو سالوں سے سندھ کی زمینوں، وسائل اور دولت پر قابض اور انہیں دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں،کارستانیوں اور کارگزاریوں پر مبنی انکوائری رپورٹس اور عدالتوں کے سامنے کیسز پر کتابیں لکھی جا سکتی ہیں،وزیرداخلہ کا بیان

منگل 15 دسمبر 2015 09:44

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔15دسمبر۔2015ء) سندھ حکومت کی جانب سے رینجرز اختیارات میں توسیع نہ دینے پر وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثارعلی خان نے صوبائی حکومت کو اڑھے ہاتھوں لیتے ہوئے کہاہے کہ کچھ لوگوں نے اپنی غلط کاریاں چھپانے کیلئے سندھ اور پاکستان کی سیاست کو ڈھال بنا رکھا ہے۔ کوئی ادارہ ان کی جواب طلبی کر تا ہے تو یہ اسے سندھ پر حملے سے تشبیہہ دیتے ہیں۔

سندھ پر کوئی ادارہ یا وفاقی حکومت حملہ آور نہیں بلکہ سند ھ پر حملہ آور تو وہ لوگ ہیں جو گذشتہ کئی سالوں سے سندھ کی زمینوں ، وسائل اور اس کی دولت پر قابض ہیں اور انہیں دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔ترجمان وزارت داخلہ کی جانب سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثارعلی خان نے کہا کہ ای او بی آئی کیس سے لیکر ٹی ڈی اے پی تک اور سوئی گیس کمپنی سے لیکر پی آئی اے تک ان کی کارستانیوں اور کارگزاریوں پر مبنی انکوائر ی رپورٹس اور عدالتوں کے سامنے کیسز پر کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔

(جاری ہے)

حد تو یہ ہے کہ انہوں نے حج اور عمرہ کو بھی نہیں بخشا۔ پاکستان شاید وہ واحد ملک ہے کہ جہاں ان کے دورِ اقتدار میں حج اور عمرہ کے حوالے سے بدترین کرپشن ہوئی ۔ میں اپنے کردار کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں کرنا چاہتا وہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے سب کے سامنے ہے۔مجھے ذاتی طور پر لیکچر سنانے والی شخصیت کی پچھلے ڈھائی سال کی کارکردگی اور کردار اگر بیان کر دوں تو یہ منہ چھپاتے پھریں گے۔

اسمبلی میں حکومت پر ایک زبان سے تنقید اور دوسری طرف اسی زبان سے خاموشی سے حکومت سے بھرتیاں، تبادلے، ایکسٹینشن، مراعات اور مفادات لینے والوں کے کردار کے بارے میں میں کیا کہوں۔ ان مراعات اور نوازشوں کی اتنی لمبی لسٹ ہے کہ اس سے فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور کے کچھ مخصوص اپوزیشن لیڈران کی یاد تازہ ہو تی ہے جو حکومت مخالف بھی تھے اور اپنے مفاد کی خاطر حکومت کے ساتھ بھی تھے۔

میں اپنے بارے میں صرف اتنی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ بطور اپوزیشن لیڈر اپنے پانچ سالوں میں قریبی ذاتی تعلقات ہونے کے باوجود کسی ایک کام کیلئے بھی میں نہ وزیرِاعظم گیلانی کے پاس گیا اور نہ ہی راجہ پرویز اشرف کے۔ اور اسکے دونوں حضرات گواہ ہیں۔ اپنی پریس کانفرنس کے حوالے سے میں اتنا کہوں گا کہ یہ اس لئے ضروری ہو گئی تھی کہ گذشتہ تین ہفتوں سے باوجود میٹنگز اور یقین دہانیوں کے معاملہ بلاجواز لٹکایا جا رہا تھااور کراچی آپریشن اور رینجرز کے کردار کو صرف ایک شخص کی وجہ سے متنازعہ بنایا جا رہا تھا اور بطور وزیرِداخلہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ حقائق قوم کے سامنے رکھنا ضروری ہو گیا تھا تاکہ اس کی اونرشپ صرف کراچی کے عوام ہی نہیں بلکہ پاکستان کے عوام اور تمام سیاسی پارٹیز لیں۔

اس کے بعد حکومت سندھ نے اپنا ردعمل دے دیا۔ سنجیدگی اور میچورٹی کا تقاضہ تھا کہ اس کے بعد معاملات کو سب کے تحفظات کی روشنی میں حل کی طرف بڑھایا جاتا مگر اس کے برعکس پیپلز پارٹی کے مختلف لیڈران نے اپنے بیانات کے رخ میرے خلاف کر دیے اور اپنی تما م تر توجہ ذاتی اور بلا جواز حملوں پر مرکوز کر دی۔ ذاتی حملے اور غیر مہذب الفاظ وہی استعمال کرتے ہیں جن کے پاس کوئی دلیل یا منطق نہ ہو۔

میری پریس کانفرنس کے بعد جس قسم کی تنقید صوبائی حکومت کی طرف سے آئی اس کی وضاحت ضروری ہے:ایک ۔ بار بار یہ کہا گیا کہ وفاقی حکومت سندھ میں آپریشن پر ایک کوڑی بھی خرچ نہیں کر رہی۔ حقیقت یہ ہے کہ سندھ رینجرز پر اٹھنے والے نو (9)ارب کے اخراجات سالانہ وفاقی حکومت ادا کر رہی ہے۔ سندھ میں وفاقی انٹیلی جنس ایجنسیز پر اٹھنے والے اخراجات اس کے علاوہ ہیں جو کہ سارے کے سارے وفاق برداشت کرتا ہے۔

ہاں سربیا سے درآمد کی گئی ایسی سیکنڈ ہینڈ APCsکیلئے وفاق پیسہ نہیں دے گا جو نئی امریکی APCsسے بھی زیادہ ہو اور جن کے معاہدے پر ان کے اپنے آئی جی نے دستخط کرنے سے بھی انکار کر دیا ہو۔ یہ علیحدہ بات کہ اس آئی جی کو اس جرم کی پاداش میں اپنے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ دو۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ یہ خالصتاً صوبائی مسئلہ ہے اور اس میں کسی اور کو مداخلت کا حق نہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ آپریشن صوبائی حکومت نے نہیں بلکہ وفاقی حکومت نے شروع کیا اور اس آپریشن کی سرکردگی رینجرز اور وفاقی انٹیلی جنس ایجنسیز کر رہی ہیں جو کہ وفاق کے ماتحت ہیں۔

مزید یہ کہ اس آپریشن پر سپریم کورٹ کی واضح اور خاص ہدایات ہیں جو کہ صوبائی اور وفاقی حکومت دونوں کیلئے ہیں۔ تین ۔ یہ تنازعہ وفاق کی طرف سے شروع نہیں ہوا بلکہ اس لئے شروع ہوا کہ رینجرز کے اختیارات کی تاریخ ختم ہونے اور بار بار کی یقین دہانیوں کے باوجود یہ مسئلہ وقت پر حل نہیں کیا گیا اور اسے بلا وجہ لٹکایا گیا۔گذشتہ تین ہفتوں سے اس مسئلے پر تبصرے، تنقید اور بحث صوبائی حکومت کی طرف سے ہی جا ری ہے۔

پریس کانفرنس سے پہلے وفاق کی طرف سے ایک لفظ بھی نہیں کہا گیا۔چار۔ ایف آئی اے کے بارے میں ایک ہی نقطہ اعتراض جولائی میں اٹھایا گیا جس کے نتیجے میں میری ہدایت پر ڈائریکٹر ایف آئی اے نے کمشنر کراچی کی موجودگی میں وزیرِاعلیٰ سندھ سے ملاقات کی اور آئندہ کے حوالے سے معاملات اور طریقہ کار طے ہوا۔ اس کے بعد کوئی ایسا واقعہ یا کاروائی نہیں ہوئی جس پر سندھ حکومت کو اعتراض ہو۔

اس کے باوجود یہ کہا جا رہا ہے کہ ایف آئی اے سندھ حکومت پر حملہ آور ہو رہی ہے۔پانچ۔ نیب وفاقی حکومت کی ہدایت پر کاروائی نہیں کرتا۔ یہ ایک خودمختار اداراہ ہے۔ اس کا سربراہ حکومت اور پیپلز پارٹی کے اتفاق رائے سے مقرر ہوا ہے۔ کرپشن کے خلاف اس ادارے کی کسی کاروائی کو حکومت کے ا قدام سے تعبیر کرنا بلاجواز اور غیر مناسب ہے۔ چھ۔ اس سے پہلے ایم کیو ایم، جماعتِ اسلامی، اے این پی اور سنی تحریک کے کچھ لوگ آپریشن کے دوران گرفتار ہوئے لیکن کسی نے بھی اس طرح آپریشن پر سوالات نہیں اٹھائے جسطرح سندھ حکومت نے اٹھائے بلکہ اچھی بھلی رفتار کو منجمند کر دیا۔

میں ایک بار پھر کہوں گا کہ کراچی ، سندھ اور پاکستان کے وسیع تر مفاد میں ہمیں آگے کو دیکھنا چاہیے اور سیاسی اختلافات کو ایک طرف رکھ کر کراچی کے آپریشن کو مثبت انداز سے آگے بڑھانا چاہیے۔ وفاق پہلے بھی اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرتا رہا ہے اور آئندہ بھی کرنے کیلئے تیار ہے۔ مگر میں یہ بھی واضح کر دوں کی ایک وزیر سے ہٹ کر میری ایک ذاتی حیثیت بھی ہے اور اگر کچھ لوگ آپریشن سے توجہ ہٹانے کی خاطر مجھ پر ذاتی یا سیاسی حملے کریں گے تو پھر میں جواب دینے کا حق محفوظ رکھتا ہوں اور یہ جواب دینے سے مجھے کوئی نہیں روک سکتا۔

الزام تراشی کرنے والوں میں یہ حوصلہ ہونا چاہیے کہ وہ اس بحث کو دلائل اور حقائق تک محدود رکھیں تب ہی قوم کو اوربالخصوص سندھ کی عوام کو معلوم ہو سکے گا کہ کون صحیح کہہ رہا ہے اور کو ن غلط۔

متعلقہ عنوان :