الطاف حسین تقاریر اور بیانات پابندی کیس،سپریم کورٹ نے درخواست نمٹاتے ہوئے معاملہ لاہور ہائی کورٹ کو ارسال کردیا،فریقین ہائی کورٹ سے رجوع کریں اگر کسی کوما تحت عدا لت کے فیصلے سے اختلاف ہو تو وہ دوبارہ سپریم کورٹ سے رجوع کرسکتاہے ،عدا لتی ریما رکس ،حکومت لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کی حمایت کرتی ہے ، ایڈیشنل اٹارنی جنرل، ہائی کورٹ کا حکم عبوری تھا جو اب ختم ہوچکا ہے، عاصمہ جہانگیر

بدھ 4 نومبر 2015 09:45

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔4نومبر۔2015ء) سپریم کورٹ نے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی تقاریر اور بیانات پر پابندی کے حوالے سے دائر درخواست نمٹاتے ہوئے معاملہ لاہور ہائی کورٹ کو ارسال کردیا ہے ۔ جبکہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا وقار نے عدالت میں وفاقی حکومت کی جانب سے موقف اختیار کیا ہے کہ حکومت لاہور ہائی کورٹ کے پابندی کے حوالے سے فیصلے کی حمایت کرتی ہے ۔

عدالت کا فیصلہ ہے اور یہ حتمی فیصلہ تھا جبکہ عاصمہ جہانگیر نے کہا ہے کہ ہائی کورٹ کا حکم عبوری تھا جو اب ختم ہوچکا ہے ۔

(جاری ہے)

انہوں نے یہ دلائل جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں دو رکنی بینچ کے روبرو منگل کے روز دیئے ہیں سماعت شروع ہوئی تو اظہر صدیق عدالت میں پیش ہوئے اور انہوں نے کہا کہ انہیں ہائیکو رٹ کے آرڈر کیخلاف یہاں آنے پر اعتراض ہے کیونکہ جب سات ستمبر 2015ء کو عدالت نے حکم امتناعی جاری کیا تھا جس کے خاتمے کیلئے الطاف حسین نے سولہ ستمبر 2015ء کو ہائی کورٹ میں درخواست دی تھی جو تاحال زیر سماعت ہے جب تک اس کی سماعت نہیں ہوجاتی ان کو سپریم کورٹ آنے کی ضرورت نہ تھی اس دوران عدالت نے ان سے پوچھا کہ باقی اعتراضات چھوڑیں یہ بتائیں کہ عدالت کا حکم امتناعی عبوری تھا یا نہیں اور کیا اب یہ حکم برقرار ہے اس پر اظہر صدیق نے کہا کہ یہ عبوری فیصلہ تھا ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا وقار پیش ہوئے اور انہوں نے عدالت کو بتایا کہ وفاقی حکومت ہائی کورٹ کے فیصلے کی حمایت کرتی ہے عدالت نے درست فیصلہ کیا تھا اس پر عدالت نے درخواست ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہونے کی وجہ سے مقدمہ فیصلہ کے لئے ہائی کورٹ بھجوادیا ہے اور فریقین سے کہا ہے کہ وہ دونوں ہائی کورٹ سے رجوع کرسکتے ہیں اور اگر کسی کو ہائی کورٹ کے فیصلے سے اختلاف ہو یا متاثر ہو وہ دوبارہ سپریم کورٹ سے رجوع کرسکتے ہیں بعد ازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عاصمہ جہانگیر کا کہنا ہے کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل اس مقدمے کو بغاوت کا مقدمہ قرار دے رہے ہیں اور دوسری طرف حکومت مطالعاتی کمیٹیاں بناتی پھرتی ہے اگر یہ بغاوت کا مقدمہ ہے تو پھر وفاقی حکومت کواس حوالے سے کارروائی کرنی چاہیے انہوں نے کہا کہ ابھی تک انہوں نے عدالتی حکم پڑھا نہیں ہے تاہم جو سمجھ میں آیا ہے اس کے مطابق یہ عدالت نے ریزرویشن دی ہے کہ پابندی کا حکم عبوری تھا اور پندرہ روز گزر جانے کے بعد وہ ختم ہوچکا ہے تاہم اس فیصلے کے ختم ہونے یا نہ ہونے بارے اثرات کا جائزہ ہائی کورٹ ہی لے سکتی ہے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حکومت کو واضح بیان دینا چاہیے ان کو حکومت دوطرفہ نظر آتی ہے ایک طرف پابندی بارے ہائی کورٹ کے فیصلے کی تائید کررہی ہے اور دوسری طرف مطالعاتی کمیٹی بھی بنا رہے ہیں حکومت کو دو رخی سوچ اپنانے کی بجائے ایک سوچ اپنانی چاہیے انہوں نے مزید کہا کہ اگر ضرورت ہوئی تو سپریم کورٹ سے دوبارہ رجوع کیا جائے گا