بدعنوانی،جرم پر استوار کلچرلاقانونیت کو فروغ دے رہا ہے،چیف جسٹس،آئین میں ریاستی اداروں کے درمیان اختیارات کی تقسیم کا بہترین توازن قائم کیا گیا جس کا خیال رکھنا لازم ہے،سیاسی اقتدارِ اعلیٰ کے مالک عوام ہیں، ہم کسی فرد نہیں قانون کے تابع ہیں،قانون ساز یقینی بنائیں کہ قوانین بنیادی حقوق سے ہم آہنگ اور ایسے پالیسی اصولوں کو فروغ دیں جو قانون کی بالادستی کیلئے اہم ہوں،برابری اور مساوات منصفانہ معاشرے کے قیام کا اہم جزو ہے،انصاف کی فراہمی کا معیار غیر تسلی بخش، انتظامی اور تکنیکی صلاحیتوں کا فقدان، خصوصی مہارتوں کی کمی، وسائل کا غلط استعمال اور بد انتظامی کے ساتھ بدعنوانی اور مجرمانہ سوچ شامل ہے، کارکردگی کی جانچ اور تجزیے کا کوئی نظام نہیں،لاء اینڈ جسٹس کمیشن کو مفادِ عامہ کے تحفظ ، قانون کی بالادستی کو ممکن بنانے اور قومی لائحہ عمل تشکیل دینے کا فریضہ سونپا ہے،سینٹ میں خطاب

بدھ 4 نومبر 2015 09:40

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔4نومبر۔2015ء )چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیرجمالی نے منگل کے روز سینٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہاہے کہ بنیادی طور پر،" عوام" ہی ریاستِ پاکستان کے ضامن اور اس سے مستفید ہونے والے ہیں، بدعنوانی اور جرم پر استوار موجودہ کلچر،لاقانونیت اور قانون سے ماورائیت کو فروغ دے رہا ہے ریاست کے استحکام کے علاوہ ریاستی اداروں پر اعتماد اور ان کے وجود کے جواز اور سب سے بڑھ کر پورے سماجی نظام کے لیے شدید خطرات پیدا کررہا ہے ،ہمارے آئین میں ریاستی اداروں کے درمیان اختیارات کی تقسیم کا بہترین توازن قائم کیا گیا ہے جس کا خیال رکھنا تمام اداروں پر لازم ہے ۔

حاکمیت اعلیٰ صرف اللہ جل شانہ کے پاس ہے اور سیاسی اقتدارِ اعلیٰ کے مالک عوام ہیں جو اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے اس کا اظہار کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ہم سب کسی فرد کے نہیں بلکہ قانون کے تابع ہیں ۔ ریاستی ادارے، جو ہماری پایسیوں اور قوانین کا نفاذ کریں یوں تشکیل دئیے جائیں کہ وہ اپنی ساخت میں نمائندہ، غیر جانبدار اورمنصفانہ ہوں۔

قانون سازوں اور قوانین کا مسودہ لکھنے والوں کو یہ یقینی بنانا چاہیے کہ ان کے تیار کردہ قوانین بنیادی حقوق سے ہم آہنگ اور ایسے پالیسی اصولوں کو فروغ دیں جو قانون کی بالادستی کے لیے نہایت ا ہم ہے۔برابری اور مساوات اس منصفانہ معاشرے کے قیام کا اہم جزو ہے جس کا وعدہ کیا گیا تھا اور جس کی ضمانت آئین کی آرٹیکل25میں دی گئی ہے جو کہتا ہے کہ ”قانون کے سامنے سب برابر ہیں اور انہیں قانون کے تحت یکساں تحفظ حاصل ہے“۔

منگل کوسینٹ سے خطاب میں چیف جسٹس کا مزید کہناتھاکہ آئینی اقدار و روایات کے فروغ اور انصاف کی فراہمی کے لیے جو خدمات ادا کی جارہی ہیں ان کا معیار کئی وجوہات کی بنا پر غیر تسلی بخش ہے۔ ان وجوہات میں انتظامی اور تکنیکی صلاحیتوں کا فقدان، خصوصی مہارتوں کی کمی، ناکافی وسائل کا غلط اور بے جا استعمال اور بد انتظامی کے ساتھ ساتھ بدعنوانی اور مجرمانہ سوچ بھی شامل ہیں۔

ہمارے پاس اپنی کارکردگی کی جانچ اور تجزیے کا کوئی نظام نہیں۔ ہمارے پاس کوئی نظام نہیں جو بتا سکے کہ انصاف سے وابستہ امیدیں کیا ہیں اور ان سے تشفی کی کیا کیفیت ہے۔یہ بات باعثِ تشویش ہے کہ ہمارے ہاں انصاف کی فراہمی کے عمل میں معیار کی نگرانی کا فقدان ہے۔ ریاست کا تصور ایک سماجی و سیاسی مفاہمت پر استوار ہے جسے کہیں معاہدہ (کنٹریکٹ) تو کہیں تصفیہ (سیٹلمنٹ) یاباہمی اعتماد (ٹرسٹ) کے عنوان سے پکارا گیا ہے جو آئین کی اساس ہے۔

ہمارا یہ مشاہدہ معاشرے اور ریاست کی تشکیل میں آئین کی کلیدی اہمیت کے علاوہ پاکستان سے متعلق ہماری امنگوں کی نوعیت اور وسعت کو بھی اجاگر کرتا ہے۔ لہٰذا آگے بڑھنے سے قبل، میں آئین کی اہمیت کے بارے میں مختصر گزارشات کرنا چاہوں گا جس کے بعد میں اداروں کی اہمیت اور قانون کی بالادستی پر بات کروں گا۔آئین کی تمہید میں پہلے تو اس ریاست اور معاشرے کے بنیادی خدوخال کی وضاحت کی گئی ہے، جس کا خواب دیکھا گیا تھا ۔

جس میں کہا گیا ہے کہ "نظم (آرڈر) کا قیام عوام کی مرضی سے ہوگا" یہاں مملکتِ پاکستان کی جانب اشارہ کیا گیا ہے جس کے بعد ”نظمِ نو“ کے تصور کی تشریح کی گئی ہے۔ بعدازاں تمہید کا اختتام اس بات پر ہوتا ہے ک ہ ہم، پاکستان کے عوام، قومی اسمبلی میں اپنے نمائندوں کے ذریعے، اپنے لیے آئین کو اختیار اورنافذ کریں گے"۔ بنیادی طور پر،"پاکستان کے عوام" ہی ریاستِ پاکستان کے ضامن اور اس سے مستفید ہونے والے ہیں جو اس عزم پر کاربند ہیں کہ اپنے قومی اور سیاسی اتحاد اور یکجہتی کا تحفظ کریں گے ۔

ہمار ے آئینی ڈھانچے میں ، اختیار ات کو وسیع پیمانے پر معاشرے میں اس طرح تقسیم کیا گیا ہے کہ پا کستان کے عوام ہی ان اختیارات کی قوتِ نافذہ کاجواز اور منبع ہیں۔ اسی بناء پرریاست اور سماج کے رشتے کو آئین میں وضاحت سے بیان کیا گیا ہے۔ ریاست جمہور کی منشاء پر قائم ہوئی ہے جس کی توضیح آئین میں کی گئی ہے ۔اسی تناظر میں پاکستان کے عوام اپنے اختیار و اقتدار کواپنے منتخب نمائندوں یعنی پارلیمنٹ کو تفویض کرتے ہوئے بروئے کار لاتے ہیں ۔

درحقیقت یہ تفویض، اس امر کی جانب پہلا اشارہ ہے کہ منتخب نمائندے اور درحقیقت ریاست کا تمام ڈھانچہ ہی پاکستان کے عوام کو جواب دہ ہے۔ چونکہ سماج ہی ریاست کے تمام عناصر اور کارندوں کو وجود کا جواز بخشتا ہے، اس لیے لازم ہے کہ وہ عوامی امنگوں کے مطابق خدمات انجام دیں تاکہ عوام اور ریاست کے مابین فاصلے محدود ہوسکیں اور عوام کا ریاستی اداروں اور پالیسیوں پر اعتماد بحال رہ سکے۔

عوام کی توقعات اور تقاضے ہی دراصل ہماری کارکردگی کو جانچنے کے پیمانے ہیں۔اپنی ہئیت کے اعتبار سے تمام ریاستی قوت اور اختیارات اس حتمی اور اخلاقی عقیدے کے تحت مقرر کردہ حدود میں منظم اور منقسم ہے کہ "حاکمیت اعلیٰ صرف اللہ جل شانہ " کے پاس ہے اور سیاسی اقتدارِ اعلیٰ کے مالک عوام ہیں جو اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے اس کا اظہار کرتے ہیں۔

آئین کی اسی تمہید میں، یہ بھی کہا گیا ہے کہ "عدلیہ کی آزادی کو کْلی طور پر محفوظ رکھا جائے گا" تاکہ "مکمل انصاف" کیا جاسکے۔ (آرٹیکل (1) 187)، جس کے لیے پاکستان کے تمام انتظامی اور نظام عدل سے وابستہ اداروں اور محکموں کے لیے لازم قرار دیا گیا ہے کہ وہ سپریم کورٹ آف پاکستان کی معاونت کریں گے ۔ہمارے آئین میں ریاستی اداروں کے درمیان تقسیمِ اختیارات کا بہترین توازن قائم کیا گیا ہے جس کا خیال رکھنا تمام اداروں پر لازم ہے ۔

لازم ہے کہ ہم اس امر کا ادراک کریں کہ ہمارا آئین تغیر پسند ہے۔ یہ ریاست کے لیے ایسا وژن پیش کرتا ہے جہاں ریاست معیار تشکیل دیتی ہے۔مزیدبرآں یہ آئین ، ریاست کو ترقی کا وہ راستہ چننے کا اختیار دیتا ہے جسے آئین کی تمہید، قرادادِ مقاصد، بنیادی حقوق اور پالیسی اصولوں میں جا بجا واضح کیا گیا ہے۔مختصر الفاظ میں، یہ آئین ہی بیان کرتا ہے کہ پاکستان کیا ہے، وہ عزم کیا ہے جس کا نام پاکستان ہے، اور وہ کون سے اختیارات ہیں جو ریاستی اداروں اور نمائندوں کو حاصل ہیں تاکہ وہ اس عزم کو عملی جامہ پہنا سکیں۔

ہمیں نہایت دانشمندی اور جاں فشانی کے ساتھ اپنی ریاست کے اجزاء اور سماج کی کارکردگی کوجانچنا ہوگا تاکہ اس آئینی تقاضے کی تکمیل کرسکیں۔جیسا کہ آئین کی تمہید میں لکھا ہے، وہ "نظمِ نو" (New Order)جس کے قیام کا ہم سب نے وعدہ کیا ہے ، ایک ایسے سماج کی تشکیل کا عزم ہے جو مساوات کے اصولوں پر مبنی ہو ، جہاں بنیادی حقوق کی ضمانت ہو اورجہاں ریاست کے باشندوں کو سماجی اور معاشی انصاف ملے ، زندگی میں فکر و عمل ، اظہارِ رائے ، اجتماع اورمذہبی آزادی حاصل ہو ۔

اسی بنا پر ہمارے آئین میں منصفانہ ریاست کے قیام کا ہدف پورا کرتا ہے جس کا ہم سب نے عزم کیا ہے۔ میری نظر میں ، یہ ایک روشن خیال، عملیت پسند اورجامع مینڈیٹ ہے۔ لیکن مجھے افسوس ہے اور جس کا ہمیں اعتراف کرنا ہوگا کہ ہم اس مینڈیٹ کے تقاضے پورے کرنے میں ناکام ہورہے ہیں اور ہمیں فوری طور پر اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔اس لیے ہمیں ریاست اور سماج میں آئینی روح کو مزید توانا کرنے کی ضرورت ہے ، تاکہ پاکستان سے وابستہ وعدوں کے بارے میں عوام کو آگاہ کیا جائے اور رائے عامہ کو ہموار کیا جائے۔

اور آئین کے ان بنیادی تغیراتی عناصر کی تصریح کی جائے جو ریاست اور سماج کے مابین رشتے کی وضاحت کرتے ہیں اور پاکستان کے بارے میں ہمارے عزم، مملکت کے باشندے کی حیثیت سے حاصل حقوق ، فرائض اور امنگوں کی ترجمانی کرتے ہیں۔ یہ عمل ہی دراصل پاکستان کا مقصد اور اساس ہے جس سے اس ملک کا خمیر اٹھتا ہے۔ یعنی ایک منصفانہ ریاست اور سماج اور جس کو اپنانے اور فروغ دینے کی ذمے داری اْن سب پر کماحقہ لازم ہے ، جو عوامی اور سرکاری نمائندے کی حیثیت سے اس ریاست کا حصہ ہیں۔

اسی لیے اپنی ذمے داری کے طور پر میں نے لاء اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان کو ہدایت کی ہے کہ وہ پاکستان میں قانون کی عمل داری اور بنیادی حقوق کے بارے میں رائے عامہ کو زیادہ سے زیادہ باخبر کرنے کے بارے میں فعال کردار ادا کرے۔غیر منصفانہ ریاست اور معاشرہ اپنی ساخت میں غیر مستحکم ہوتے ہیں یہ طویل عرصہ باقی نہیں رہ سکتے، نہ ہی یہ ہماری نوجوان اور تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی ضرورتوں کو پورا کرسکتے ہیں، جبکہ شہرکاری (اربنائزیشن) اور عالم گیریت (گلوبلائزیشن) جیسے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے بھی یہ ناکافی ہیں۔

اہم ترین بات یہ ہے کہ جب ریاست کے باشندے خود کو ریاست کی مساوی اکائی تصور نہیں کرتے اور خود کو معاشرے کا حصہ محسوس نہیں کرتے، تو یہ احساس ریاست اورمعاشرے کے اجزائے ترکیبی کے لیے خطرہ بن جاتا ہے ، جیسا کہ ہم اس تنہائی کو سیاست، معیشت اور قانون کے دائروں میں بڑھتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔اگر نہایت سادہ انداز میں یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ہم سب کسی فرد کے نہیں بلکہ قانون کے تابع ہیں ۔

آئینی تقاضوں کے بارے میں اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے میں آئین کے آرٹیکل25 کا ذکر کرنا چاہوں گا جو واضح طور پر کہتا ہے کہ قانون کی نظر میں تمام شہری برابر ہیں اور یکساں قانونی تحفظ کے حق دار ہیں ۔ ہر شہری کا یہ ناقابلِ تنسیخ حق ہے کہ اُس کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کیا جائے (آرٹیکل4) جیسا کہ فرانسس فوکویاما (Francis Fukayama) نے لکھا ہے کہ قانون کی بالادستی در اصل ایک مذہبی تصور ہے جس کی توثیق ہمارے آئین کے اس نظریے سے بھی ہوتی ہے کہ تمام اخلاقی اور حتمی حاکمیتِ اعلیٰ صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو ہی حاصل ہے اور جس کی جانب شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال نے شکوہ (1909) میں نہایت نزاکت سے اشارہ بھی کیا ہے۔

قانون کی بالادستی کو روزمرہ زندگی ، ریاستی امور کی انجام دہی، سماجی نظم کے فروغ اور عوام کے آپس کے معاملات میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔اقوام عالم نے انصاف تک رسائی کے لیے قانون کی بالادستی کو پائیدار ترقی کے اہداف (Sustainable Development Goals) میں شامل کیا ہے ۔حکومتِ پاکستان نے بھی اپنے وژن 2025ء میں ایک قوم ایک نصب العین پالیسی میں اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ قانون کی بالادستی ایک "نا گزیر ضرورت" ہے۔

اس پالیسی میں کہا گیا ہے کہ "اس بات پر اتفاقِ رائے بڑھ رہا ہے کہ ملک کا مستقبل قانون کی بالادستی، عدلیہ کی آزادی اور آئین کی عملداری میں ہی مضمر ہے" اس امر کو ایک ترجیح کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے کہ "ایسے قانونی ڈھانچے کی ضرورت ہے جو عوام کو بااختیار بنائے، اور اس بات کی ضمانت فراہم کرے کہ عوام عزتِ نفس کے ساتھ زندہ رہیں، ان کے انسانی حقوق اورجانیں محفوظ ہوں" ضروری ہے کہ آپ کے سامنے میں یہ عہدو پیمان پڑھ کر سُناؤں جو یوں ہے"قانون کی بالادستی نہ ہو تو پائیدار اور مسلسل ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوپاتا۔

لہٰذا اس وژن کے حصول کے لیے قانون کی بالادستی کو ممکن بناناہوگا تاکہ معاہدات پر عمل درآمد، منڈیوں کا انتظام، مسابقت کی راہ میں حائل رکاوٹوں کا تدارک اور ہر باشندے کے لیے بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی سمیت ایسے ہی مزید اہم معاملات کو چلایا جاسکے۔حکومت ایسا ماحول مہیا کرے گی جس میں قانون کی بالادستی کا سختی سے نفاذ ہوسکے۔ جس کے لیے عدلیہ کو مستحکم کیا جائے گا ، پولیس اور کرمنل جسٹس سسٹم میں اصلاحات کی جائیں گی ، قوانین اور ضوابط کا ازسرِ نو جائزہ لیا جائے گا اور تنازعات کے تصفیے کے رسمی اور غیر رسمی ذرائع کو مزید مستحکم بنایا جائے گا۔

اس کا مقصد صرف اتنا ہوگا کہ معاشرے کے تمام طبقات کو قانون اور انصاف کی یکساں رسائی حاصل ہوہم متعلقہ اداروں کے ساتھ شراکت قائم کریں گے تاکہ پائیدار ترقی کے اہداف اور وژن2025ء کے بارے میں قومی عزم پر عمل پیرا ہوسکیں۔میں نے لاء اینڈ جسٹس کمیشن کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس ضمن میں تمام متعلقہ فریقوں کے ساتھ پیش رفت کو ممکن بنائے، جس کی میں کمیشن کے چیئرمین کی حیثیت سے خود نگرانی کروں گا۔

ایک قومی مقصد کے ساتھ یہ میرے عزم کا اظہارہے۔ آئینی اقدار و روایات کے فروغ اور انصاف کی فراہمی کے لیے جو خدمات ادا کی جارہی ہیں ، ان کا معیار کئی وجوہات کی بنا پر غیر تسلی بخش ہے۔ ان وجوہات میں انتظامی اور تکنیکی صلاحیتوں کا فقدان، خصوصی مہارتوں کی کمی، ناکافی وسائل کا غلط اور بے جا استعمال اور بد انتظامی کے ساتھ ساتھ بدعنوانی اور مجرمانہ سوچ بھی شامل ہیں۔

ہمارے پاس اپنی کارکردگی کی جانچ اور تجزیے کا کوئی نظام نہیں۔ ہمارے پاس کوئی نظام نہیں جو بتا سکے کہ انصاف سے وابستہ امیدیں کیا ہیں اور ان سے تشفی کی کیا کیفیت ہے۔یہ بات باعثِ تشویش ہے کہ ہمارے ہاں انصاف کی فراہمی کے عمل میں معیار کی نگرانی کا فقدان ہے۔ہم یہ سمجھتے ہیں کہ قوانین پر عمل درآمد انتظامیہ کی اوّلین ذمے داری ہے۔تاہم جب سماج میں فرد کے حقوق کی نفی یا خلاف ورزی کی صورت حال سامنے آئے تو یہ عدلیہ کا فریضہ بن جاتا ہے کہ انتظامی اصلاحات کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔

بہتر ہوتا ہے کہ حکومت خود اس عمل کی رہبری کرے، لیکن اگر ناقص عمل درآمد اور کم زور نظم ونسق ہو تو صورت حال کی سنگینی کو سامنے رکھتے ہوئے، عدلیہ کو انتظامی امور میں مداخلت کرنا پڑتی ہے۔اسی بنا پر لاء اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان کو سپریم کورٹ آف پاکستان کی اعانت کے لیے آگے آنا پڑا تاکہ ایسے معاملات کا جائزہ لیا جائے، انتظامی اصلاحات پر تبادلہ خیال ہو اور بعدازاں ان پر عمل درآمد کو ممکن بنایا جاسکے۔

قوانین پر عمل درآمد میں کمزوری کا ایک نتیجہ، قانون کے دائرے سے اخراج بھی ہوتا ہے۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ ریاست کا تشکیل کردہ نظام انصاف، سماج میں جنم لینے والے تمام تنازعات کا صرف بیس فیصد حصہ ہی نمٹاتا ہے جبکہ بقایا اسی فیصد تنازعات کا تصفیہ جرگہ اور پنچایت جیسے غیر منظم اور بے ضابطہ ذرائع سے ہورہا ہے۔ ہمارے نزدیک یہ صورت حال نہ صرف نظام قانون سے بڑے پیمانے پردوری کا عکاس ہے بلکہ ریاست، سماج اور عوام کے درمیان بڑھتے فاصلوں کا سبب بھی ہے۔

اپنے بیشتر شہریوں کی انصاف کی ضرورتوں کی تشفی کرنے میں ریاست کی ناکامی ، ریاستی اداروں کے وجود کے جواز پرسوالیہ نشان لگا دیتی ہے ، جو خود ریاست کی عمل داری کو کمزور کرتی ہے، جس کا نتیجہ امن و امان کی خراب صورت حال، نظم و نسق کی کمزوری یا ریاستی گرفت سے بعض علاقوں کی دوری اور عدم استحکام کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ معاشرے کی جانب سے ریاستی اقدامات کی توثیق یا تردید کو ہم سرسری انداز میں نہیں دیکھ سکتے۔

ریاستی اداروں کے وجود کے جواز، اور ان پر عوام کے اعتماد کو بحال رکھنے کے لیے یہ امر نہایت ضروری ہے کہ ان اداروں سے معاشرے کی جائز توقعات، ضروریات اور امنگوں کا کُلی طور پر اور بروقت جائزہ لیا جائے۔ معاشرے پر ایک دانستہ اور سوچی سمجھی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے تاکہ باہمی معاملات اور ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کے لیے عوام کی انصاف، تحفظ اور ترقی جیسی ضرورتوں کو پورا کیا جا سکے، کیونکہ یہی استعداد کسی بھی مملکت کواپنے وجود کا جواز عطا کرتی ہے۔

یقیناً، آئین بھی اس ضرورت کو تسلیم کرتا ہے کہ "مقامی ریاست" اور مقامی نظم و نسق کو مستحکم کیا جائے (آرٹیکل 32)، تاکہ ریاستی امور میں زیادہ سے زیادہ فریقوں کو شمولیت کے مواقع مل سکیں اور سیاسی تنازعات کماحقہ طے کیے جاسکیں۔تاہم یہ وسیع تر پالیسی امور پارلیمنٹ اور متعلقہ حکومتوں کودیکھنے ہیں۔سماجی ہم آہنگی کو ممکن بنانے کے لیے، ہمیں زیادہ فعالیت کے ساتھ دیکھنا ہوگا کہ معاشرے کے غریب اور نظرانداز طبقات کو تحفظ اور انصاف کی خدمات مہیا ہوتی رہیں ۔

ہماری کاوشیں نتیجہ خیز ہونی چاہیں یعنی ہم اپنے اقدامات کے اثرات اور نتائج پر نظر رکھتے ہوں۔لہٰذا قانون کے دائرے میں سب کی شمولیت کو ایک قومی مقصد کے طور پر سامنے آنا چاہیے ، جس کو ہم انصاف تک رسائی اور پائیدار ترقی کے ہدف کے ساتھ منسلک کرکے دیکھ سکیں۔اس کے لیے حکومت اور پارلیمنٹ کو نظام کے نقائص دور کرنے کے لیے زیادہ سرگرم کردار ادا کرنا ہوگا۔

لاء اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان کو کہا گیا ہے کہ انصاف کی ضروریات کا ایک جائزہ مرتب کیا جائے، نیز معلومات و اطلاعات کے ذخیرے کو بہتر اور نظامِ انصاف کی نگرانی اور تجزیے کے افعال کو مستحکم کیا جائے تاکہ عوام کی انصاف کی ضروریات کو موثر طور پر بروقت اور منصفانہ انداز میں
پورا کیا جائے۔جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیاہے ، ایک غیرمنصفانہ ریاست اور معاشرہ غیر مستحکم اور ناپائیدار ہوتا ہے۔

لہٰذاہمیں قانون کی بالادستی کو ایک سماجی قدر کے طور پردیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ قوانین کی ساخت ایسی ہو کہ ان کے مفاد سب تک پہنچنے کے قابل ہوں۔ہمیں جائزہ لینا ہوگا کہ کیا قوانین اس آئینی تقاضے کو پورا کررہے ہیں جو برابری کی بنیاد پر ریاست کی تشکیل کا مطالبہ کرتے ہیں۔ہمیں قانونی پالیسی کا عمیق مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ قانون سازی کے عمل کے بارے میں آگاہی ہو، ہم قوانین کے ممکنہ اور حقیقی اثرات سے واقف ہوں؛ اور یہ ممکن بناسکیں کہ تمام قوانین غیرجانبدارانہ اور منصفانہ ہوں تاکہ ان کی قبولیت اور جواز کو برقرار رکھا جاسکے اور ہم یہ بھی دیکھ سکیں کہ تمام قوانین کا منصفانہ اطلاق بھی ہورہا ہے۔

یہ " عوام کے منتخب نمائندوں" کی اولین ذمے داری ہے کہ آئین کو اس کی حقیقی روح کے مطابق نافذ کیا جائے، تاکہ مفادِ عامہ اور عمومی بہبود کے تصورات پر مبنی ایسے اقدامات اٹھائے جاسکیں جن سے عوام کے جان و مال اور مفادات کا تحفظ اور فروغ ممکن ہو۔ اس مرحلے پر میں آئین اور قانون کی بالادستی کو ممکن بنانے کے لیے نگرانی اور جائزے کے حوالے سے بات کرنا چاہوں گا۔

ریاست ایک بہت نازک سے احساس پر استوار ہوتی ہے جسے اداروں پر اعتماد کہتے ہیں۔ ہمیں آپس میں ایک مشترکہ لائحہ عمل پر متفق ہونا ہوگا تاکہ اقدار اور سمت کے بحرانوں سے نمٹ سکیں اور ان اداروں اور قوانین کا نفاذ کرسکیں جن کا میں تذکرہ کرچکا ہوں۔ وہ آئین اپنے وجود کا جواز کھو دیتا ہے جس کو مضبوط ریاست کا سہارا نہیں ملتا اور یوں پورا سماج ہی شکست و ریخت کا شکار ہوجاتا ہے ، جس کی بنیاد پر ریاست ازخود استوار ہوتی ہے۔

اسی لیے ہمیں ایک قومی سوچ کی ضرورت ہے تاکہ قانون کی بالادستی کو ممکن بناسکیں۔اپنی تاریخ کے اس اہم موڑ پر، ہمیں سنجیدگی سے ان عوامل اور چیلنجوں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے جو موثر ریاست اور معاشرے کے قیام کی راہ میں حائل ہیں۔ہمیں دیکھنا ہوگا کہ کس طرح ہم ان عوامل اور چیلنجوں کامقابلہ کرکے اپنی ریاست اور معاشرے کو مستحکم کرسکتے ہیں۔

ہمیں ڈیرن اتچی موغلو (Daren Acemoglu) اور جیمز اے رابنسن(James A. Robinson) جیسے افراد کی تحریروں سے سبق لینا ہوگا جنہوں نے اپنی کتاب "اقوام کیوں ناکام ہوتی ہیں: طاقت، خوش حالی اور غربت کے مآخذات" (2012 ) میں قانون کی بالادستی میں ریاستی اداروں کے کردار پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔یا حال ہی میں رابرٹ پٹنم (Robert Putnam)کی کتاب "ہمارے بچے: امریکی خواب کا بحران" (2015 ) کو دیکھنا ہوگا جس میں مصنف نے مواقع تک رسائی اور سماجی معمولات میں عدم مساوات کے اثرات کا تفصیل سے تجزیہ کیا ہے۔

جب ہم قانون کی بالادستی کی بات کرتے ہیں، تو ہم درحقیقت اپنے شہریوں کے حقِ حیات، خوش حالی اور عزتِ نفس کی بات کرتے ہیں، جن کو ہمارا آئین ناقابلِ تنسیخ حق تسلیم کرتا ہے(آرٹیکل( 1)14)اور جو بہت اہمیت کی حامل ہے۔ سپریم کورٹ نے حقِ حیات کے بارے میں شہلا ضیاء کیس میں پہلے ہی فیصلہ سنادیا ہے لیکن فوجداری نظام انصاف کی کارکردگی میں ہمیں زندگی کی وہ مرکزیت نظر نہیں آتی۔

اگرچہ محتسب کا ادارہ 1983ء سے کام کررہا ہے، اس کے باوجود اب تک نہ تو موثر نظم و نسق کے معیار طے ہوسکے ہیں اور نا ہی بدانتظامی کے خاتمے کے لیے کوئی قومی لائحہ عمل مرتب کیا جا سکاہے جس کی وجہ سے عوام کے حقوق کی شب و روز نفی ہورہی ہے۔آئین کے آرٹیکل 10اے اور انفارمیشن کمیشنز کے قیام کے باوجود شفافیت کے معیارات موجود نہیں۔ اس کی وجہ سے بند دروازوں کے پیچھے ہونے والی بدعنوانی اور جرم بلا روک و ٹوک جاری ہیں۔

ان امور سے نبرد آزما ہونے کے لیے محض عدلیہ کی جانب سے ہی نگرانی اورجائزہ کافی نہیں ہے۔ بنیادی طور پر یہ پارلیمنٹ کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے نگرانی کے نظام، نمائندہ حیثیت ، قانون سازی اور بجٹ سازی کی صلاحیت کو استعمال کرے تاکہ نظامِ انصاف کے معیار اور رسائی کو جائزے، سرمایہ کاری اور ندرت کے ذریعے بہتر بنایا جاسکے۔یہ پارلیمنٹ کا فریضہ ہے کہ عدالتی نظام کی معاونت سے جو آزاد ہو اور اپنے جائزے، توضیح اورنتائج اخذ کرنے میں مقصدیت پرعمل پیرا ہو، ایسے اقدامات اٹھائے جن سے قانون اور انصاف کی خدمات کا معیار بلند ہو تاکہ آئین کو اس کی روح کے مطابق نافذ کیا جاسکے۔

جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا ہے کہ ہم آئین پاکستان کے تناظر میں ایک جدید اور روشن خیال پاکستان کے قیام کے لیے ان تمام ریاستی اداروں کے ساتھ مل کر مکمل ہم آہنگی کے ساتھ کام کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ لاء اینڈ جسٹس کمیشن کو یہ فریضہ سونپا گیا ہے کہ وہ مفادِ عامہ کے تحفظ کے لیے ، پاکستان میں قانون کی بالادستی کو ممکن بنانے کی خاطر، ایک قومی لائحہ عمل تشکیل دے تاکہ اس عزم کی تکمیل ہوسکے جس کا نام پاکستان ہے۔