پاکستان کی تخلیق المیہ نہیں بلکہ کروڑوں لوگوں کی جمہوری امنگوں کا اظہار ہے،نیندرا کلکرنی، پاک بھارت تنازعات کو حل کرنے میں رکاوٹ پاکستانی سیاست میں فوج کی بالادستی نہیں بلکہ رکاوٹیں کچھ اور ہیں،مانی شنکر آئر، بیک چینل سے تنازعات کو حل کرنے کے بہت راستے ملے ہیں، سلمان حیدر

منگل 3 نومبر 2015 09:50

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔3نومبر۔2015ء)پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کی بھارت میں کتاب کی تقریب رونمائی کرانے والے اور آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن کے سربراہ سدھ نیندرا کلکرنی نے کہا ہے کہ پاکستان کی تخلیق المیہ نہیں بلکہ کروڑوں لوگوں کی جمہوری امنگوں کا اظہار ہے۔ بھارت کے سینئر سیاستدان اور دانشور مانی شنکر آئر نے کہا ہے کہ پاک بھارت تنازعات کو حل کرنے میں رکاوٹ پاکستانی سیاست میں فوج کی بالادستی نہیں بلکہ رکاوٹیں کچھ اور ہیں۔

بھارت کے سابق سیکرٹری خارجہ سلمان حیدر نے کہا ہے کہ بیک چینل سے تنازعات کو حل کرنے کے بہت راستے ملے ہیں۔ وہ پیر کو مقامی ہوٹل میں خورشید محمود قصوری کی کتاب ”Neither a Hawk nor a Dove“ (نہ عقاب نہ فاختہ) کی مقامی ہوٹل میں تقریب رونمائی سے خطاب کررہے تھے۔

(جاری ہے)

تقریب کے شرکاء نے کلکرنی کا پرتپاک استقبال کیا۔ جب وہ اسٹیج پر آئے تو تقریب کے شرکاء نے کھڑے ہو کر ان کا استقبال کیا اور کافی دیر تک تالیاں بجاتے رہے۔

کلکرنی کو اس وجہ سے شہرت ملی تھی کہ بھارت میں شیوسینا کے شرپسندوں نے ان کے منہ پر کالا رنگ مل دیا تھا اور انہوں نے اسی حالت میں کتاب کی تقریب رونمائی میں شرکت کی تھی۔ سدھ نیندرا کلکرنی نے کہا کہ خورشید محمود قصوری نے پاک بھارت مذاکرات کی بات کو بھارت میں مقبول کیا اور میں ان کی تائید کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ آزادی کے بعد پاکستان کے میں ان تمام اداروں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جنہوں نے پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے لئے کام کیا۔

ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان متحد رہے۔ میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ دونوں ممالک کے درمیان دوستانہ اور پرامن تعلقات قائم ہوں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی تخلیق المیہ نہیں ہے بلکہ یہ کروڑوں عوام کی جمہوری امنگوں کا اظہار ہے۔ دونوں طرف ہجرت کے دوران جو خونریزی ہوئی اس پر کوئی خوش نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی تخلیق میں محمد علی جناح کا بہت اہم کردار ہے لیکن مجھے بہت افسوس ہے کہ بھارت میں کچھ حلقے محمد علی جناح کے کردار کو ولن کے کردار کے طور پر پیش کرتے ہیں حالانکہ وہ نہیں جانتے کہ جناح صاحب ہندو مسلم اتحاد کے سفیر تھے۔

11 اگست 1947ء کو پاکستان کی قانون ساز اسمبلی سے محمد علی جناح نے جو خطاب کیا، وہ ان کی سوچ اور پالیسیوں کا عکاس ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم دونوں ملکوں کے عوام مفاہمت اور امن چاہتے ہیں تو بھارت کے لوگوں کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ محمد علی جناح ایک عظیم لیڈر تھے اور اسی طرح پاکستان کے لوگوں کو گاندھی، نہرو، آزاد اور دیگر بھارتی رہنماؤں کے کردار کو سراہنا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ میں خورشید محمود قصوری کے اس موٴقف کا حامی ہوں کہ ہم دونوں کو اپنی تاریخ پر نظر ثانی کرنی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر انتہائی اہم ایشو ہے اور اس کا باعزت طریقے سے حل نکالنا چاہئے۔ اب بھارت میں بھی کشمیریوں کے لئے درد پیدا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ممبئی میں بھی دہشت گردی ہوتی ہے لیکن اس کا الزام میں پاکستان کے لوگوں کو نہیں دیتا۔

پاکستان صوفیوں کی سرزمین ہے۔ میں قصوری صاحب کی اس بات سے بھی متفق ہوں کہ غیر ریاستی عناصر پاکستان کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں سوچنا چاہئے کہ کشمیر جیسی جنت نظیر جگہ پر مسلسل فوجی موجودگی کیوں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ میں وزیراعظم نریندر مودی سے کہتا ہوں کہ وہ تاریخ کے پہیے کو الٹا نہ گھمائیں۔ وزیراعظم پاکستان نواز شریف سے بھی کہتا ہوں کہ پاک بھارت تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے جو ہوم ورک ہوا ہے اس سے وہ فائدہ اٹھائیں۔

انہوں نے مہاتما بدھ کا یہ قول دہرایا کہ ہر عظیم جنگ وہ ہوتی ہے جس میں کوئی مفتوح نہ ہو بلکہ سب فاتح ہوں۔ ہم دونوں ملکوں کے عوام اپنے تعلقات کو بہتر بنانے میں ضرور کامیاب ہوں گے۔ بھارت کے سینئر سیاستدان، سابق وزیر اور دانشورمانی شنکر آئر نے کہا کہ بھارت میں بعض حلقوں کا یہ خیال ہے کہ پاکستان میں فوج کی سیاست میں بالادستی ہے، اس لئے مسئلہ حل نہیں ہوتا لیکن میں اس بات سے اتفاق نہیں کرتا کیونکہ پاک بھارت زیادہ تر مسائل فوجی حکومتوں میں حل ہوئے۔

رکاوٹیں کچھ اور ہیں۔ بھارت کے 150 ملکوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات ہیں۔ ان ملکوں میں بعض ایسے بھی ہیں جہاں جمہوری تسلسل نہیں ہے تو پاکستان کے لئے اس بات کو کیوں مسئلہ بنایا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ مذاکرات کا تسلسل نہیں رہا۔ بلا تعطل اور بلا خلل مذاکرات ہونے چاہئیں۔ پاکستان اور بھارت کو ایک دوسرے کو تسلیم کرنا ہوگا اور ایک دوسرے سے بات کرنا ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کے لوگوں میں یہ خواہش موجود ہے کہ تعلقات بہتر ہوں۔ امن کی اس خواہش کو جذبات سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا بلکہ یہ قابل عمل اقدام ہے۔ جنرل مشرف کے دور میں جو 4 نکاتی ایجنڈا دیا گیا تھا اس سے مسئلہ کشمیر کے حل میں بہت پیش رفت ہوئی تھی۔ اگر 2006ء میں بھارتی وزیرعظم من موہن سنگھ پاکستان آجاتے تو مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے ایک فریم ورک مل جاتا۔ بھارت کے سابق سیکرٹری خارجہ سلمان حیدر نے کہا کہ میں بھی پاکستان اور بھارت کے درمیان بلا تعطل مذاکرات کا حامی ہوں لیکن اس کے لئے میکنزم بنانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ بیک چینل ڈپلومیسی سے ہمیں بہت سے راستے ملے ہیں۔

متعلقہ عنوان :